Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ان کا نام تو میاں عبدالرشید قلندر تھا لیکن مشہور وہ نوٹوں والی سرکار کے نام سے تھے۔ سرگودھا میں کوٹ فرید کے بڑے، قدیمی اور وسیع قبرستان میں بر لب سڑک چھوٹی سی مسجد میں قیام کرتے جہاں جمعرات کو ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا۔
حضرت نوٹوں والی سرکار مجذوب تھے اور دنیا سمجھتی تھی کہ جو لفظ ان کی زبان سے نکل جاتا ہے، پورا ہو کر رہتا ہے۔
جمعرات کو مغرب اور عشا کی نماز کے مواقع پر خوب بھیڑ ہوتی۔ حضرت صف اول میں ہوتے۔ لوگ از راہ عقیدت ان کے دائیں بائیں کھڑے ہونے کی کوشش کرتے۔ سرکار شریک تو ہر نماز میں بالا التزام ہوتے لیکن دوران نماز دائیں بائیں بھی دیکھ لیتے۔ ہلکے سے کسی کو ڈانٹ بھی دیتے لیکن کوئی اس کا برا نہ مناتا۔ سب جانتے تھے کہ حضرت یہ سب ارادے سے نہیں کرتے بلکہ ان سے آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔

انھیں نوٹوں والی سرکار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو مٹھیاں بھر بھر کر نوٹ تقسیم کردیا کرتے تھے جو عقیدت مند ان کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
نماز کے بعد محفل ہوتی۔ محفل میں درود شریف بآواز بلند پڑھا جاتا پھر دعا ہوتی اور دعا کے بعد لنگر تقسیم ہوتا جسے حضرت خود اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرماتے۔ حضرت سے لنگر کے حصول کے لیے شہر کے بڑے بڑے رؤسا، اہل علم اور جدید پڑھے لکھے لوگ بھی صف میں کھڑے ہوتے۔ اس تقریب کا یہی وہ خاص مرحلہ ہوتا جس کی انتظار میں لوگ یہاں گھنٹوں گزارتے۔ لوگ کھڑے ہوتے اور حضرت مٹھی بھر بھر کے عقیدت مندوں میں بانٹتے جاتے۔ اس موقع پر حضرت مناسب سمجھتے تو کسی کو مخاطب کر کے دھیمے سے کچھ ارشاد بھی فرما دیتے۔ ان میں پیار دلار کے جملے بھی ہوتے اور چھوٹی موٹی گالیاں بھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لنگر اور اس بات کا تحفہ لوگوں کی زندگی بدل دینے کے لیے کافی ہے۔
ایک ڈاکٹر بھی ان کے عقیدت مند تھے۔ ہر ہفتے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، اس دربار کے خدام وغیرہ کا علاج بھی وہی کیا کرتے۔ ایک بار لنگر بانٹتے ہوئے حضرت نے ڈاکٹر صاحب کا کان پکڑ لیا، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا کان اور حضرت دہن مبارک قریب آگئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت نے اس روز عجب بات کہی۔ فرمایا، ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب جب سانس زہریلی ہو جائے گی، تم قریب قریب کھڑے ہو پاؤ گے نہ ایک دوسرے کے قریب آسکو گے۔ سالو پھر تم کیا کرو گے؟
ڈاکٹر نے یہ بات سنی اور حیران ہوئے۔ اس کے بعد لنگر انھوں نے ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا، ہمارے تو مزے ہیں، ہم تو تب نہیں ہونے کے۔ یہ کہہ کر کھلکھلا کر ہنس دیے۔ سرکار اکثر ایسی ہی باتیں اور پیش گوئیاں کیا کرتے جو اکثر پوری ہو جاتیں۔ اس بات کا اسرار باقی تھا، کورونا کی تباہ کاریوں نے اس کا پردہ بھی چاک کر دیا۔ سچ ہے، اللہ اپنے بندوں کو بہت پہلے بہت سی حقیقتوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔
ان کا نام تو میاں عبدالرشید قلندر تھا لیکن مشہور وہ نوٹوں والی سرکار کے نام سے تھے۔ سرگودھا میں کوٹ فرید کے بڑے، قدیمی اور وسیع قبرستان میں بر لب سڑک چھوٹی سی مسجد میں قیام کرتے جہاں جمعرات کو ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا۔
حضرت نوٹوں والی سرکار مجذوب تھے اور دنیا سمجھتی تھی کہ جو لفظ ان کی زبان سے نکل جاتا ہے، پورا ہو کر رہتا ہے۔
جمعرات کو مغرب اور عشا کی نماز کے مواقع پر خوب بھیڑ ہوتی۔ حضرت صف اول میں ہوتے۔ لوگ از راہ عقیدت ان کے دائیں بائیں کھڑے ہونے کی کوشش کرتے۔ سرکار شریک تو ہر نماز میں بالا التزام ہوتے لیکن دوران نماز دائیں بائیں بھی دیکھ لیتے۔ ہلکے سے کسی کو ڈانٹ بھی دیتے لیکن کوئی اس کا برا نہ مناتا۔ سب جانتے تھے کہ حضرت یہ سب ارادے سے نہیں کرتے بلکہ ان سے آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔

انھیں نوٹوں والی سرکار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو مٹھیاں بھر بھر کر نوٹ تقسیم کردیا کرتے تھے جو عقیدت مند ان کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
نماز کے بعد محفل ہوتی۔ محفل میں درود شریف بآواز بلند پڑھا جاتا پھر دعا ہوتی اور دعا کے بعد لنگر تقسیم ہوتا جسے حضرت خود اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرماتے۔ حضرت سے لنگر کے حصول کے لیے شہر کے بڑے بڑے رؤسا، اہل علم اور جدید پڑھے لکھے لوگ بھی صف میں کھڑے ہوتے۔ اس تقریب کا یہی وہ خاص مرحلہ ہوتا جس کی انتظار میں لوگ یہاں گھنٹوں گزارتے۔ لوگ کھڑے ہوتے اور حضرت مٹھی بھر بھر کے عقیدت مندوں میں بانٹتے جاتے۔ اس موقع پر حضرت مناسب سمجھتے تو کسی کو مخاطب کر کے دھیمے سے کچھ ارشاد بھی فرما دیتے۔ ان میں پیار دلار کے جملے بھی ہوتے اور چھوٹی موٹی گالیاں بھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لنگر اور اس بات کا تحفہ لوگوں کی زندگی بدل دینے کے لیے کافی ہے۔
ایک ڈاکٹر بھی ان کے عقیدت مند تھے۔ ہر ہفتے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، اس دربار کے خدام وغیرہ کا علاج بھی وہی کیا کرتے۔ ایک بار لنگر بانٹتے ہوئے حضرت نے ڈاکٹر صاحب کا کان پکڑ لیا، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا کان اور حضرت دہن مبارک قریب آگئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت نے اس روز عجب بات کہی۔ فرمایا، ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب جب سانس زہریلی ہو جائے گی، تم قریب قریب کھڑے ہو پاؤ گے نہ ایک دوسرے کے قریب آسکو گے۔ سالو پھر تم کیا کرو گے؟
ڈاکٹر نے یہ بات سنی اور حیران ہوئے۔ اس کے بعد لنگر انھوں نے ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا، ہمارے تو مزے ہیں، ہم تو تب نہیں ہونے کے۔ یہ کہہ کر کھلکھلا کر ہنس دیے۔ سرکار اکثر ایسی ہی باتیں اور پیش گوئیاں کیا کرتے جو اکثر پوری ہو جاتیں۔ اس بات کا اسرار باقی تھا، کورونا کی تباہ کاریوں نے اس کا پردہ بھی چاک کر دیا۔ سچ ہے، اللہ اپنے بندوں کو بہت پہلے بہت سی حقیقتوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔
ان کا نام تو میاں عبدالرشید قلندر تھا لیکن مشہور وہ نوٹوں والی سرکار کے نام سے تھے۔ سرگودھا میں کوٹ فرید کے بڑے، قدیمی اور وسیع قبرستان میں بر لب سڑک چھوٹی سی مسجد میں قیام کرتے جہاں جمعرات کو ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا۔
حضرت نوٹوں والی سرکار مجذوب تھے اور دنیا سمجھتی تھی کہ جو لفظ ان کی زبان سے نکل جاتا ہے، پورا ہو کر رہتا ہے۔
جمعرات کو مغرب اور عشا کی نماز کے مواقع پر خوب بھیڑ ہوتی۔ حضرت صف اول میں ہوتے۔ لوگ از راہ عقیدت ان کے دائیں بائیں کھڑے ہونے کی کوشش کرتے۔ سرکار شریک تو ہر نماز میں بالا التزام ہوتے لیکن دوران نماز دائیں بائیں بھی دیکھ لیتے۔ ہلکے سے کسی کو ڈانٹ بھی دیتے لیکن کوئی اس کا برا نہ مناتا۔ سب جانتے تھے کہ حضرت یہ سب ارادے سے نہیں کرتے بلکہ ان سے آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔

انھیں نوٹوں والی سرکار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو مٹھیاں بھر بھر کر نوٹ تقسیم کردیا کرتے تھے جو عقیدت مند ان کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
نماز کے بعد محفل ہوتی۔ محفل میں درود شریف بآواز بلند پڑھا جاتا پھر دعا ہوتی اور دعا کے بعد لنگر تقسیم ہوتا جسے حضرت خود اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرماتے۔ حضرت سے لنگر کے حصول کے لیے شہر کے بڑے بڑے رؤسا، اہل علم اور جدید پڑھے لکھے لوگ بھی صف میں کھڑے ہوتے۔ اس تقریب کا یہی وہ خاص مرحلہ ہوتا جس کی انتظار میں لوگ یہاں گھنٹوں گزارتے۔ لوگ کھڑے ہوتے اور حضرت مٹھی بھر بھر کے عقیدت مندوں میں بانٹتے جاتے۔ اس موقع پر حضرت مناسب سمجھتے تو کسی کو مخاطب کر کے دھیمے سے کچھ ارشاد بھی فرما دیتے۔ ان میں پیار دلار کے جملے بھی ہوتے اور چھوٹی موٹی گالیاں بھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لنگر اور اس بات کا تحفہ لوگوں کی زندگی بدل دینے کے لیے کافی ہے۔
ایک ڈاکٹر بھی ان کے عقیدت مند تھے۔ ہر ہفتے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، اس دربار کے خدام وغیرہ کا علاج بھی وہی کیا کرتے۔ ایک بار لنگر بانٹتے ہوئے حضرت نے ڈاکٹر صاحب کا کان پکڑ لیا، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا کان اور حضرت دہن مبارک قریب آگئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت نے اس روز عجب بات کہی۔ فرمایا، ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب جب سانس زہریلی ہو جائے گی، تم قریب قریب کھڑے ہو پاؤ گے نہ ایک دوسرے کے قریب آسکو گے۔ سالو پھر تم کیا کرو گے؟
ڈاکٹر نے یہ بات سنی اور حیران ہوئے۔ اس کے بعد لنگر انھوں نے ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا، ہمارے تو مزے ہیں، ہم تو تب نہیں ہونے کے۔ یہ کہہ کر کھلکھلا کر ہنس دیے۔ سرکار اکثر ایسی ہی باتیں اور پیش گوئیاں کیا کرتے جو اکثر پوری ہو جاتیں۔ اس بات کا اسرار باقی تھا، کورونا کی تباہ کاریوں نے اس کا پردہ بھی چاک کر دیا۔ سچ ہے، اللہ اپنے بندوں کو بہت پہلے بہت سی حقیقتوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔
ان کا نام تو میاں عبدالرشید قلندر تھا لیکن مشہور وہ نوٹوں والی سرکار کے نام سے تھے۔ سرگودھا میں کوٹ فرید کے بڑے، قدیمی اور وسیع قبرستان میں بر لب سڑک چھوٹی سی مسجد میں قیام کرتے جہاں جمعرات کو ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا۔
حضرت نوٹوں والی سرکار مجذوب تھے اور دنیا سمجھتی تھی کہ جو لفظ ان کی زبان سے نکل جاتا ہے، پورا ہو کر رہتا ہے۔
جمعرات کو مغرب اور عشا کی نماز کے مواقع پر خوب بھیڑ ہوتی۔ حضرت صف اول میں ہوتے۔ لوگ از راہ عقیدت ان کے دائیں بائیں کھڑے ہونے کی کوشش کرتے۔ سرکار شریک تو ہر نماز میں بالا التزام ہوتے لیکن دوران نماز دائیں بائیں بھی دیکھ لیتے۔ ہلکے سے کسی کو ڈانٹ بھی دیتے لیکن کوئی اس کا برا نہ مناتا۔ سب جانتے تھے کہ حضرت یہ سب ارادے سے نہیں کرتے بلکہ ان سے آپ سے آپ ہو جاتا ہے۔

انھیں نوٹوں والی سرکار اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو مٹھیاں بھر بھر کر نوٹ تقسیم کردیا کرتے تھے جو عقیدت مند ان کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔
نماز کے بعد محفل ہوتی۔ محفل میں درود شریف بآواز بلند پڑھا جاتا پھر دعا ہوتی اور دعا کے بعد لنگر تقسیم ہوتا جسے حضرت خود اپنے ہاتھوں سے تقسیم فرماتے۔ حضرت سے لنگر کے حصول کے لیے شہر کے بڑے بڑے رؤسا، اہل علم اور جدید پڑھے لکھے لوگ بھی صف میں کھڑے ہوتے۔ اس تقریب کا یہی وہ خاص مرحلہ ہوتا جس کی انتظار میں لوگ یہاں گھنٹوں گزارتے۔ لوگ کھڑے ہوتے اور حضرت مٹھی بھر بھر کے عقیدت مندوں میں بانٹتے جاتے۔ اس موقع پر حضرت مناسب سمجھتے تو کسی کو مخاطب کر کے دھیمے سے کچھ ارشاد بھی فرما دیتے۔ ان میں پیار دلار کے جملے بھی ہوتے اور چھوٹی موٹی گالیاں بھی۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ لنگر اور اس بات کا تحفہ لوگوں کی زندگی بدل دینے کے لیے کافی ہے۔
ایک ڈاکٹر بھی ان کے عقیدت مند تھے۔ ہر ہفتے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے، اس دربار کے خدام وغیرہ کا علاج بھی وہی کیا کرتے۔ ایک بار لنگر بانٹتے ہوئے حضرت نے ڈاکٹر صاحب کا کان پکڑ لیا، اس طرح ڈاکٹر صاحب کا کان اور حضرت دہن مبارک قریب آگئے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت نے اس روز عجب بات کہی۔ فرمایا، ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب جب سانس زہریلی ہو جائے گی، تم قریب قریب کھڑے ہو پاؤ گے نہ ایک دوسرے کے قریب آسکو گے۔ سالو پھر تم کیا کرو گے؟
ڈاکٹر نے یہ بات سنی اور حیران ہوئے۔ اس کے بعد لنگر انھوں نے ڈاکٹر کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا، ہمارے تو مزے ہیں، ہم تو تب نہیں ہونے کے۔ یہ کہہ کر کھلکھلا کر ہنس دیے۔ سرکار اکثر ایسی ہی باتیں اور پیش گوئیاں کیا کرتے جو اکثر پوری ہو جاتیں۔ اس بات کا اسرار باقی تھا، کورونا کی تباہ کاریوں نے اس کا پردہ بھی چاک کر دیا۔ سچ ہے، اللہ اپنے بندوں کو بہت پہلے بہت سی حقیقتوں سے آگاہ کر دیتا ہے۔