
آندھیاں چلتی ہیں تو کمزور پتے، سب سے پہلے جھڑجاتے ہیں۔
کورونا کی ہوائے اجل بھی زمین کے ہر حصے میں کمزور پتے اڑا تی پھر رہی ہے۔
بوڑھے، غریب، لاعلم اور معذور انسان سوکھے پتوں کی مانند ڈھیر ہورہے ہیں۔
افراتفری، نااہلی اور لاک ڈائون نے بہت سے لوگوں کواس ،مقام پر لاکھڑا کیا ہے، جو کبھی ان کی سوچ میں بھی نہ تھا۔
ادھر بے روزگاری کی کڑکتی بجلیاں بھی وبا کے ساتھ مل کرچھوٹے چھوٹے نشیمن جلارہی ہیں۔
کراچی کی ڈاکٹر ماریہ کاظمی بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک ہیں جو کورونا کے باعث اپنی جیتی ہوئی جنگ کو ہار میں بدلتا ہوا دیکھ رہی ہیں۔
اٹھارہ برس سے آٹزم اور دیگر ذہنی بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج اور بحالی میں مصروف خاتون ڈاکٹر کے پاس درجنوں مریض ہیں۔ اب تک وہ اس چیلنج سے بھرپور لڑائی کرتی آئی ہیں۔ملک بھر سے والدین اپنے بچے علاج کے لیے ان کے پاس لاتے ہیں۔
لیکن اب کورونا اور لاک ڈائون کی صورت حال ان کی برسوں کی جدوجہد کو جیسے مٹانے کے درپے ہے۔
وہ ُسست رو اور حوصلے آزماتی ہوئی پیش رفت ۔۔۔ جوڈاکٹر ماریہ نےایک ایک قدم آگے بڑھا کر ممکن بنائی تھی۔۔۔ اگر حالات میں تبدیلی نہ ہوئ تو ۔۔۔ جیسے معدوم ہونے والی ہے۔
انہیں شکوہ ہے کہ سماج میں اس وقت ہر ایک کی توجہ راشن اور خوراک کی تقسیم پر ہےلیکن ذہنی طور پر معذور بچوں کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں۔
صرف کراچی شہر میں معذوروں کے 174 رجسٹرڈ ادارے ہیں اور ان میں ہزاروں بچے اور بڑے علاج، تعلیم اور بحالی کی خدمات پا رہے تھے۔ لاک ڈاؤن اور اداروں کی بندش نے ان سب کو گھروں میں بند کردیا ہے، جس سے حالات بگڑ رہے ہیں۔
آئیے دیکھیں کہ حالات کی ہوائیں کس طرح ان کمزور پتوں کو اکھاڑ پھینکنے کے قریب ہیں۔
جانیں کہ ایک خاتون ڈاکٹر کس طرح ان ہوائوں کا رخ موڑ کر ،یہ پتے بکھرنے سےروکنے کی جدوجہد کررہی ہے۔
سوچیں کہ ہم سب مل کر کس طرح ان ہوائوں کے آگے بند باندھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماریہ سے ایک اہم گفتگو ملاحظہ فرمائیں جو آپ کو آٹزم اور دیگر ذہنی امراض کے شکار بچوں پر کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کےاثرات کے بارے میں اہم نکات سے آگاہ کرے گی۔
****
(یہ رپورٹ یو ٹیوب کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھی جاسکتی ہے