Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
پاکستانی سیاست اور چینی دو الگ الگ موضوعات نہیں ہیں چینی ہمارے معاشرے میں شوق سے کھائی اور کھلائی جاتی ہے ویسے بھی ہم شیریں لوگ چینی کے دلدادہ ہیں جب تک باقاعدہ شوگرکےمریض نہ بن جائیں ہم اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے اور جہاں تک بات رہی شوگر مل گئی تو شاید ہی کوئی ایک شوگر مل ہو جو کہ سیاسی اشرافیہ کے رسوخ سے باہر ہو ۔
دنیا کے کچھ حصوں میں چینی چقندر اور پاکستان میں چینی گنے سے بنائی جاتی ہے۔ گنے کی فصل کو ہمارے دیہی علاقوں میں کماد کہا جاتا ہے۔ کماد کو تقریبا عشرے پہلے نقد آور فصل میں شمار کیا جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ کماد، منجی اور کنک یعنی چاول اور گندم کے مقابلے میں دیر سے تیار ہونے والی فصل ہے اور پانی بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ فصل لگانے کے بعد کاشتکار کو بھی خاطر خواہ منافع نہیں ملتا بلکہ کئی جگہ پر تو ڈیلے پیمنٹ پر فصل اٹھا لی جاتی ہے یعنی ادھار ہی سمجھ لیں۔ یہ فصل صرف اور صرف چند شوگر مل مالکان کے علاوہ کسی اور کے لئے نقد اور ہرگز نہیں۔ پانی بھی زیادہ لیتی ہے اور وقت بھی زیادہ لیتی ہے کیوں نا کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ مہنگی کماد کے بجائے کنک اور منجی کی سستی فصلیں لگائیں میڈیا اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حالیہ چینی اسكینڈل نے ناصرف ہماری سیاسی اشرافیہ کے چہروں سے پردہ ہٹایا بلکہ اس اسکینڈل کی بدولت تمام کاشتکاروں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جو چیز وہ اگا رہے ہیں وہ ملک وقوم کے کتنے مفاد میں ہے۔ جب بھی فی من قیمت بڑھانے کا کاشتکاروں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ مل مالکان ملیں بند کر کے الٹا کسانوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ پاکستانی زمین کے لئے سب سے موافق فصل ویسے بھی گندم ہے نہ کہ گنا۔
پاکستانی کاشتکاروں کو پہلے پہل ترغیب دی گئی کہ دوسری فصل چھوڑ کر گنا لگائیں جب کاشتکاروں نے بڑی مقدار میں گنا لگا لیا تو اس کا مناسب دام نہیں دیا گیا ۔ کماد کی فصل میں کاشتکاروں کو دوہرا نقصان ہوتا ہے ایک تو یہ فصل دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ وقت لیتی ہے اور دوسرا اس کے لئے زمین دو سال تک کے لیے مختص رکھنا پڑتی ہے کیونکہ ایک بار کٹائی کے بعد دوسری دفعہ گنا دوبارہ اگتا ہے اس کے مقابلے میں گندم کپاس اور سورج مکھی کی فصل جلد تیار ہو جاتی ہیں۔ صرف چند سالوں تک اگر پاکستانی کاشتکار کماد نہ لگائیں تو یہ شوگر ملز ویسے ہی بند ہو جائیں گی ۔ اور جہاں تک کہ رہا سوال چینی کا تو وہ درآمد بھی کی جاسکتی ہے جو کہ زیادہ سستی پڑے گی۔
شوگر مل مالکان کے ساتھ ساتھ ایک دوسری صنعت جس نے ایک استحصالی صنعت کا روپ اختیار کر لیا ہے ۔جب دل چاہے قیمت بڑھا دیتی ہے اور جب دل کیا پیداوار بند کر دیتی ہے یہ صنعت اپنے آپ کو آٹومینوفیکچرنگ کی صنعت کہلاتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں عمومی طور پر اپنی سہولیات کے اعتبار سے دنیا کی دیگر گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور تو اور مہنگی اس قدر کے الامان الحفیظ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس صنعت کو خاص مراعات بھی حاصل ہیں۔ تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ لوگوں کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے یہ صنعت بڑے پیمانے پر روزگار کا وسیلہ ہے مگر یہ وسیلہ روزگار دیگر پاکستانیوں کو بہت مہنگا پڑتا ہے مہنگی گاڑیوں کی صورت میں۔ پچھلے سال ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا بہانہ بنا کر تین دفعہ قیمتییں بڑھائیں گئیں۔ صرف گاڑیاں ہی مہنگی نہیں موٹرسائیکل جو کہ غریب آدمی کی سواری ہے وہ بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت مہنگی ہیں موٹرسائیکلوں میں سب سے زیادہ بکنے والی موٹرسائیکل ہونڈا کی ہے آج بھی موٹرسائیکل کی فروخت میں ہونڈا کمپنی سب سے آگے ہے ساٹھ فیصد تک مارکیٹ ہونڈا کے ہاتھ میں ہے اور ہونڈا کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا موٹر سائیکل ہونڈا 70cc ہے ۔ہونڈا سیونٹی سی سی کی موجودہ قیمت 73 ہزار نو سو روپے ہے۔ یعنی 74000 ہی لگا لیں۔ پھر کاغذات بنوانے میں تین سے چار ہزار روپے اور لگ جاتے ہیں۔ تو جناب صرف 70cc بھی اسی ہزار کے لگ بھگ کا پڑ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی جس کی تنخواہ پچیس اور تیس ہزار کے درمیان ہو وہ اگر ڈیڑھ ہزار روپے پچاس مہینے تک جمع کرے تو ستر سی سی کا موٹر سائیکل لینے کا سوچ سکتا ہے۔ چار سال کی بچت کے بعد جب وہ بازار جائے گا تو قیمت یقینا اور بڑھ چکی ہوگی ۔ بیرون ممالک موٹرسائیکلوں میں ایک سے ایک نئے ڈیزائن متعارف ہوئے ہیں۔ نت نئی سہولت دی گئی ہے مگر پاکستان میں یہ تمام چیزیں ابھی تک عنقا ہیں۔ جیسے سیلف سٹارٹر بیرون ممالک تمام موٹرسائیکلوں کا جزولانیفک ہے۔ مگر ہمارے ہاں کے موٹرسائیکلوں میں خال خال ہی پایا جاتا ہے۔ دنیا ڈسک بریک سے اے بی ایس بریکنگ سسٹم کی طرف سفر کر رہی ہے اور ہم ابھی تک ڈرم بریک پہ پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہیں۔اور تو اور ای ایف آئی کاربوریٹر موٹرسائیکلوں میں بھی متعارف کرا دیے گئے ہیں تاکہ پیٹرول کا خرچ کم سے کم ہو مگر ہم ابھی تک بٹرفلائی کاربوریٹر کو ہی پوری طرح اپنا نہیں پائے ہیں۔ غرضیکہ یہ کمپنیاں کباڑ بھی سونے کی دام بیچ رہی ہیں۔
یہ صنعت کہلاتی تو اپنے آپ کو آٹو مینوفیکچرنگ کی صنعت مگر در حقیقت یہ صرف اور صرف اسمبلرز ہیں۔ باہر کی نامی گرامی کمپنیوں کو تو چھوڑیں۔ پاکستانی کی اپنی کمپنیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں منافع بھرپور چاہیے،اور چیز معیاری نہیں بناتے ۔ حکومت کی بے حسی بھی اس ضمن میں کمال ہے۔ نہ ان کمپنیز کو پابند کیا جاتا ہے کہ قیمتیں کنٹرول کریں۔ نا ہی اس بات پر عمل درامد کروایا جاتا ہے کہ سپئرپارٹس کی فراہمی یقینی بنائیں۔ بسا اوقات صرف سات سو روپے کے سپیئر پارٹ کی عدم دستیابی ستر ہزار کی موٹر سائیکل کو کچرا بنا دیتی ہے۔ یا تو حکومت ایک ریسٹورنٹ چلانے والے کو پوچھ لیتی ہے۔ کہ تم کیا بیچ رہے ہو ٹھیلے والے کے پیچھے بھی لگ جاتی ہے کہ یہاں کھڑا ہونا غیر قانونی ہے نہیں پوچھتی تو ان سے نھیں پوچھتی کہ تم کیا بیچ رہے ہو کتنے میں بیچ رہے ہو اور کتنا منافع کمایا ۔ جو گاڑی یا موٹر سائیکل بنائی اسکے سپیئر پارٹس بھی بنائے کہ نہیں ۔ اس معاملے میں یہ انڈسٹری شتر بے مہار ہے۔
کہا جاتا ہے دنیا میں رہنا ہے تو دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنا ہوتا ہے مگر ہم لوگ ہی شاید قدامت پسند ہیں یہ ہماری موٹرسائیکل کی پسندیدگی بتاتی ہے۔ جو ماڈل پوری دنیا میں متروک ہو چکے ہیں وہ ہمارے ہاں کے پسندیدہ ماڈل ہیں جیسے ہونڈا سیونٹی سی سی اور ہونڈا ون ٹو فائیو کے ڈیزائن والے دوسرے۔ مگر اس میں پوری طرح قصور ہماری عوام الناس کا نہیں ہے لوگ نت نئے ڈیزائن کو پسند بھی کرتے ہیں خریدنا بھی چاہتے ہیں مگر کسی بھی موٹرسائیکل کے جب تک اسپئرپارٹس ہی مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو وہ ماڈل کامیاب ہوکر بھی ناکام ہو جاتا ہے جیسے سپر پاور کا 110 سی سی چیتاماڈل اور یونیک کا یوڈی ہنڈریڈ جب کمپنی نے متعارف کروایا تو لوگوں نے ٹھیک ٹھاک خریدا بھی مگر بعد میں اپنے اسپیئر پارٹس کی غیر موجودگی کی وجہ سے پٹ گیا۔
خیر دنیا میں تو الیکٹرک موٹر سائیکلیں بن رہی ہیں، استعمال ہو رہی ہیں پاکستان میں بھی الیکٹرک موٹر سائیکل اور کاریں ٹی وی کی حد تک تو متعارف ہوگئی ہیں مگر عملی طور پر نہیں۔ ان کی رجسٹریشن میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ سنا تھا حکومت کی نئی الیکٹرک کار اور موٹر سائیکل پالیسی جلد آئے گی جس کے بعد ان گاڑیوں کی رجسٹریشن ہونا آسان ہوجائے گی مگر وہ پالیسی ابھی تک تو نہیں آسکی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بیٹری کے چارج ہونے کے بعد چلائی جا سکیں گی وہ بھی نپے تلے وزن کے ساتھ جیسے اگر ایک آدمی کےساتھ بیس کلو میٹر فاصلہ طے کرتی ہے تو دو اشخاص کے ساتھ دس کلومیٹر رہ جائے گا۔ دوسرا منفی پہلو میرے نزدیک بجلی سے چارج ہونا ہی ہے کیونکہ پاکستان میں بجلی کا حال سب جانتے ہیں ۔
یعنی 2024 میں اگر کسی خوش نصیب نے الیکٹرک موٹر سائیکل لے بھی لی تو جون جولائی کے کسی دن اپنے باس کو یہ کہہ کر فون کرے گا
باس بہت لیٹ ہو جاؤں گا کیونکہ بس میں آؤں گا۔باس غصے سے پوچھے گا وہ موٹرسائیکل کہاں غارت کری جو ابھی کچھ دنوں پہلے لی تھی تم نے ملازم جواب دے گا باس ساری رات پورے علاقے کی بجلی بند تھی اور موٹر سائیکل اسی لئے چارج نہ ہوسکی۔
پاکستانی سیاست اور چینی دو الگ الگ موضوعات نہیں ہیں چینی ہمارے معاشرے میں شوق سے کھائی اور کھلائی جاتی ہے ویسے بھی ہم شیریں لوگ چینی کے دلدادہ ہیں جب تک باقاعدہ شوگرکےمریض نہ بن جائیں ہم اسکا پیچھا نہیں چھوڑتے اور جہاں تک بات رہی شوگر مل گئی تو شاید ہی کوئی ایک شوگر مل ہو جو کہ سیاسی اشرافیہ کے رسوخ سے باہر ہو ۔
دنیا کے کچھ حصوں میں چینی چقندر اور پاکستان میں چینی گنے سے بنائی جاتی ہے۔ گنے کی فصل کو ہمارے دیہی علاقوں میں کماد کہا جاتا ہے۔ کماد کو تقریبا عشرے پہلے نقد آور فصل میں شمار کیا جاتا تھا۔ مگر اب نہیں۔ کماد، منجی اور کنک یعنی چاول اور گندم کے مقابلے میں دیر سے تیار ہونے والی فصل ہے اور پانی بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ سب سے مزیدار بات یہ ہے کہ فصل لگانے کے بعد کاشتکار کو بھی خاطر خواہ منافع نہیں ملتا بلکہ کئی جگہ پر تو ڈیلے پیمنٹ پر فصل اٹھا لی جاتی ہے یعنی ادھار ہی سمجھ لیں۔ یہ فصل صرف اور صرف چند شوگر مل مالکان کے علاوہ کسی اور کے لئے نقد اور ہرگز نہیں۔ پانی بھی زیادہ لیتی ہے اور وقت بھی زیادہ لیتی ہے کیوں نا کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ مہنگی کماد کے بجائے کنک اور منجی کی سستی فصلیں لگائیں میڈیا اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حالیہ چینی اسكینڈل نے ناصرف ہماری سیاسی اشرافیہ کے چہروں سے پردہ ہٹایا بلکہ اس اسکینڈل کی بدولت تمام کاشتکاروں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ جو چیز وہ اگا رہے ہیں وہ ملک وقوم کے کتنے مفاد میں ہے۔ جب بھی فی من قیمت بڑھانے کا کاشتکاروں کی جانب سے مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ مل مالکان ملیں بند کر کے الٹا کسانوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ پاکستانی زمین کے لئے سب سے موافق فصل ویسے بھی گندم ہے نہ کہ گنا۔
پاکستانی کاشتکاروں کو پہلے پہل ترغیب دی گئی کہ دوسری فصل چھوڑ کر گنا لگائیں جب کاشتکاروں نے بڑی مقدار میں گنا لگا لیا تو اس کا مناسب دام نہیں دیا گیا ۔ کماد کی فصل میں کاشتکاروں کو دوہرا نقصان ہوتا ہے ایک تو یہ فصل دیگر فصلوں کے مقابلے میں زیادہ وقت لیتی ہے اور دوسرا اس کے لئے زمین دو سال تک کے لیے مختص رکھنا پڑتی ہے کیونکہ ایک بار کٹائی کے بعد دوسری دفعہ گنا دوبارہ اگتا ہے اس کے مقابلے میں گندم کپاس اور سورج مکھی کی فصل جلد تیار ہو جاتی ہیں۔ صرف چند سالوں تک اگر پاکستانی کاشتکار کماد نہ لگائیں تو یہ شوگر ملز ویسے ہی بند ہو جائیں گی ۔ اور جہاں تک کہ رہا سوال چینی کا تو وہ درآمد بھی کی جاسکتی ہے جو کہ زیادہ سستی پڑے گی۔
شوگر مل مالکان کے ساتھ ساتھ ایک دوسری صنعت جس نے ایک استحصالی صنعت کا روپ اختیار کر لیا ہے ۔جب دل چاہے قیمت بڑھا دیتی ہے اور جب دل کیا پیداوار بند کر دیتی ہے یہ صنعت اپنے آپ کو آٹومینوفیکچرنگ کی صنعت کہلاتی ہے۔ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں عمومی طور پر اپنی سہولیات کے اعتبار سے دنیا کی دیگر گاڑیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور تو اور مہنگی اس قدر کے الامان الحفیظ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس صنعت کو خاص مراعات بھی حاصل ہیں۔ تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ لوگوں کا روزگار اس انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے یہ صنعت بڑے پیمانے پر روزگار کا وسیلہ ہے مگر یہ وسیلہ روزگار دیگر پاکستانیوں کو بہت مہنگا پڑتا ہے مہنگی گاڑیوں کی صورت میں۔ پچھلے سال ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا بہانہ بنا کر تین دفعہ قیمتییں بڑھائیں گئیں۔ صرف گاڑیاں ہی مہنگی نہیں موٹرسائیکل جو کہ غریب آدمی کی سواری ہے وہ بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت مہنگی ہیں موٹرسائیکلوں میں سب سے زیادہ بکنے والی موٹرسائیکل ہونڈا کی ہے آج بھی موٹرسائیکل کی فروخت میں ہونڈا کمپنی سب سے آگے ہے ساٹھ فیصد تک مارکیٹ ہونڈا کے ہاتھ میں ہے اور ہونڈا کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا موٹر سائیکل ہونڈا 70cc ہے ۔ہونڈا سیونٹی سی سی کی موجودہ قیمت 73 ہزار نو سو روپے ہے۔ یعنی 74000 ہی لگا لیں۔ پھر کاغذات بنوانے میں تین سے چار ہزار روپے اور لگ جاتے ہیں۔ تو جناب صرف 70cc بھی اسی ہزار کے لگ بھگ کا پڑ جاتا ہے۔ ایک عام آدمی جس کی تنخواہ پچیس اور تیس ہزار کے درمیان ہو وہ اگر ڈیڑھ ہزار روپے پچاس مہینے تک جمع کرے تو ستر سی سی کا موٹر سائیکل لینے کا سوچ سکتا ہے۔ چار سال کی بچت کے بعد جب وہ بازار جائے گا تو قیمت یقینا اور بڑھ چکی ہوگی ۔ بیرون ممالک موٹرسائیکلوں میں ایک سے ایک نئے ڈیزائن متعارف ہوئے ہیں۔ نت نئی سہولت دی گئی ہے مگر پاکستان میں یہ تمام چیزیں ابھی تک عنقا ہیں۔ جیسے سیلف سٹارٹر بیرون ممالک تمام موٹرسائیکلوں کا جزولانیفک ہے۔ مگر ہمارے ہاں کے موٹرسائیکلوں میں خال خال ہی پایا جاتا ہے۔ دنیا ڈسک بریک سے اے بی ایس بریکنگ سسٹم کی طرف سفر کر رہی ہے اور ہم ابھی تک ڈرم بریک پہ پر ہی تکیہ کیے ہوئے ہیں۔اور تو اور ای ایف آئی کاربوریٹر موٹرسائیکلوں میں بھی متعارف کرا دیے گئے ہیں تاکہ پیٹرول کا خرچ کم سے کم ہو مگر ہم ابھی تک بٹرفلائی کاربوریٹر کو ہی پوری طرح اپنا نہیں پائے ہیں۔ غرضیکہ یہ کمپنیاں کباڑ بھی سونے کی دام بیچ رہی ہیں۔
یہ صنعت کہلاتی تو اپنے آپ کو آٹو مینوفیکچرنگ کی صنعت مگر در حقیقت یہ صرف اور صرف اسمبلرز ہیں۔ باہر کی نامی گرامی کمپنیوں کو تو چھوڑیں۔ پاکستانی کی اپنی کمپنیاں بھی کچھ کم نہیں ہیں منافع بھرپور چاہیے،اور چیز معیاری نہیں بناتے ۔ حکومت کی بے حسی بھی اس ضمن میں کمال ہے۔ نہ ان کمپنیز کو پابند کیا جاتا ہے کہ قیمتیں کنٹرول کریں۔ نا ہی اس بات پر عمل درامد کروایا جاتا ہے کہ سپئرپارٹس کی فراہمی یقینی بنائیں۔ بسا اوقات صرف سات سو روپے کے سپیئر پارٹ کی عدم دستیابی ستر ہزار کی موٹر سائیکل کو کچرا بنا دیتی ہے۔ یا تو حکومت ایک ریسٹورنٹ چلانے والے کو پوچھ لیتی ہے۔ کہ تم کیا بیچ رہے ہو ٹھیلے والے کے پیچھے بھی لگ جاتی ہے کہ یہاں کھڑا ہونا غیر قانونی ہے نہیں پوچھتی تو ان سے نھیں پوچھتی کہ تم کیا بیچ رہے ہو کتنے میں بیچ رہے ہو اور کتنا منافع کمایا ۔ جو گاڑی یا موٹر سائیکل بنائی اسکے سپیئر پارٹس بھی بنائے کہ نہیں ۔ اس معاملے میں یہ انڈسٹری شتر بے مہار ہے۔
کہا جاتا ہے دنیا میں رہنا ہے تو دنیا کی رفتار کے ساتھ چلنا ہوتا ہے مگر ہم لوگ ہی شاید قدامت پسند ہیں یہ ہماری موٹرسائیکل کی پسندیدگی بتاتی ہے۔ جو ماڈل پوری دنیا میں متروک ہو چکے ہیں وہ ہمارے ہاں کے پسندیدہ ماڈل ہیں جیسے ہونڈا سیونٹی سی سی اور ہونڈا ون ٹو فائیو کے ڈیزائن والے دوسرے۔ مگر اس میں پوری طرح قصور ہماری عوام الناس کا نہیں ہے لوگ نت نئے ڈیزائن کو پسند بھی کرتے ہیں خریدنا بھی چاہتے ہیں مگر کسی بھی موٹرسائیکل کے جب تک اسپئرپارٹس ہی مارکیٹ میں دستیاب نہ ہو وہ ماڈل کامیاب ہوکر بھی ناکام ہو جاتا ہے جیسے سپر پاور کا 110 سی سی چیتاماڈل اور یونیک کا یوڈی ہنڈریڈ جب کمپنی نے متعارف کروایا تو لوگوں نے ٹھیک ٹھاک خریدا بھی مگر بعد میں اپنے اسپیئر پارٹس کی غیر موجودگی کی وجہ سے پٹ گیا۔
خیر دنیا میں تو الیکٹرک موٹر سائیکلیں بن رہی ہیں، استعمال ہو رہی ہیں پاکستان میں بھی الیکٹرک موٹر سائیکل اور کاریں ٹی وی کی حد تک تو متعارف ہوگئی ہیں مگر عملی طور پر نہیں۔ ان کی رجسٹریشن میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ سنا تھا حکومت کی نئی الیکٹرک کار اور موٹر سائیکل پالیسی جلد آئے گی جس کے بعد ان گاڑیوں کی رجسٹریشن ہونا آسان ہوجائے گی مگر وہ پالیسی ابھی تک تو نہیں آسکی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
بیٹری سے چلنے والی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بیٹری کے چارج ہونے کے بعد چلائی جا سکیں گی وہ بھی نپے تلے وزن کے ساتھ جیسے اگر ایک آدمی کےساتھ بیس کلو میٹر فاصلہ طے کرتی ہے تو دو اشخاص کے ساتھ دس کلومیٹر رہ جائے گا۔ دوسرا منفی پہلو میرے نزدیک بجلی سے چارج ہونا ہی ہے کیونکہ پاکستان میں بجلی کا حال سب جانتے ہیں ۔
یعنی 2024 میں اگر کسی خوش نصیب نے الیکٹرک موٹر سائیکل لے بھی لی تو جون جولائی کے کسی دن اپنے باس کو یہ کہہ کر فون کرے گا
باس بہت لیٹ ہو جاؤں گا کیونکہ بس میں آؤں گا۔باس غصے سے پوچھے گا وہ موٹرسائیکل کہاں غارت کری جو ابھی کچھ دنوں پہلے لی تھی تم نے ملازم جواب دے گا باس ساری رات پورے علاقے کی بجلی بند تھی اور موٹر سائیکل اسی لئے چارج نہ ہوسکی۔