کرونا وائرس کی وبا نے باقی دنیا کے طرح پاکستانی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن اس بحران کے گزرنے کے بعد آنے والا سال بھی ملک کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق اُس وقت اسے اصل اور سودی قرضوں کی ادائیگی میں 91 ارب ڈالر کا سامنا ہو گا، ترسیلات اور برآمدات میں واضح کمی آ چکی ہو گی، اور ایک اندازے کے مطابق تقریباْ 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہوں گے پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے چیف اکنامسٹ ظفرالحسن الماس کی رائے میں اس کرونا بحران سے گزرنے کے بعد تمام ممالک اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوءَے اپنی پالیسیاں مرتب کریں گے جوعالمی تجارت اور روزگار کے مواقع پر منفی طور پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بینکوں کی لیکویڈِٹی، مالی رکاوٹوں کے معاملات، اور آء ایم ایف پروگرام کے اہداف کو دوبارہ طے کیے جانے جیسے مسائل بھی درپیش ہوں گے پاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مالی معاملات کا ہو گا۔ اگلے سال پاکستان کو اصلی اور سودی قرضوں کی مِد میں 91 ارب ڈالر کی بین الاقوامی ادائیگی کرنی ہے جس کا انتظام اسے بین الا قوامی مارکیٹ سے نئے قرضوں کی صورت میں کرنا پڑے گا مالی معاملات کے سخت ہونے کی وجہ سے بیرونی قرضوں کی دوبارہ مالی اعانت کرنا بہت مشکل ہو گا برآمدات اور ترسیلاتِ زر درآمدات کے مقابلے میں معیشت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اندازے کے مطابق اس سال 42 ارب ڈالر کی برآمدات اور تقریباْ اتنی ہی ترسیلاتِ زر ہونی تھی، مگر موجودہ حالات میں سال کے آخر تک بیرونِ ملک پاکستانیوں کی طرف سے ہونے والی ترسیلاتِ زر کم ہو کر صرف 2 ارب ڈالر تک رہ سکتی ہیں متحدہ عرب امارآت اور دیگر خلیجی ممالک میں ابھی تک تقریبا30 ہزارپاکستانی بے روزگار ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں ابھی اضافہ ہورہا ہے جبکہ بحران کے بعد کے بھی روزگار کے مواقعوں میں واضح بہتری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ واپس آنے والے تارکینِ وطن کو دوبارہ ایڈجسٹ کرنا بھی بہت مشکل ہو گاپاکستان کے مزدوری کرنے والوں کی تعداد 36 ملین ہے جس میں سے غیر رسمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے 24 ملین لوگوں کے روزگار کو خطرہ لاحق ہے اور محتاط ترین اندازوں کے مطابق بھی کم از کم 3 ملین لوگ بے روزگار ہو جائیں گے ملک کو ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ درآمدات اور برآمدات کے شعبوں میں ہو گا جس میں 1 سے 1۔5 بلین ڈالر نقصان کا اندیشہ ہے۔ مالی سال کے چوتھے حصّے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ 1۔5 سے 2 بلین ڈالر ہے لکین اس میں واضح اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ برآمدات کا حجم بھی3-5 بلین ڈالر تک سکڑ سکتا ہے تسلی اس لیے بھی ہے کہ ملک کو درپیش موجودہ مالی خسار زیادہ پریشان کُن نہیں ہے اور مارچ کے اعداد و شمار کے مطابق اس میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے اور درآمدات میں کمی ہونے کی وجہ سے بہتری آئی ہے البتّہ توانائی اور اشیاء کی مقامی طلب میں کمی آنے اور صنعتیں بند ہونے سے سرمایہ کاری سے متعلقہ فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے معیشت کو کافی نقصان ہو رہا ہے اگر صرف خوراک، ادویات اور پرچون کے کاروباروں کو ہی کھولا جائے تب بھی جی ڈی پی میں 2 فی صد کی کمی آئے گی۔ پہلے حکومت جی ڈی پی میں 3۔3 سے 3۔4 فی صد اضافہ کا اندازہ لگا رہی تھی لیکن اب اس بحران کے بعد اسے کم کر کے2 سے2۔8 فی صد اضافہ کا اندازہ لگایا جا رہاہے مالی سیکٹر میں غیر مستعد قرضوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے دیوالیہ پن ہو سکتا ہے، جس کے اثرات خدمات سے متعلہ سیکٹر پر پڑیں گے اس بحران سے پہلے حکومت خسارے کو7۔4 سے 6۔5 تک محدود کرنا چاہ رہی تھی لیکن اب یہ اخراجات اور ٹیکس اور بلا ٹیکس ہونے والی آمدنی میں کمی کی وجہ سے 9 فی صد تک پہنچ سکے گا ہر مصیبت میں کچھ مواقع بھی نکلتے ہیں اورآئی ٹی میں ویڈیو کانفرنس ٰوغیرہ جیسی ضروریات کے تحت سافٹ وئیرز کی طلب میں اضافہ ہو گا جبکہ نِجی اور پبلک سیکٹرز میں دی جانے والی خدمات ڈیجیٹائیزیشن اور آن ائن ڈیلیوری کی طرف جائیں گی اسکے علاوہ ملک میں فیس ماسک اور وینٹیلیٹرز جیسی چیزوں کی تیاری کی طرف بھی اب توجہ دی جا رہی ہے اس سال حکومت گندم کی بڑی ترین فصل کی امید کر رہی ہے جو کہ 72 ملین ٹن تک ہو سکتی ہے۔ اس میں سے حکومت نے کہا ہے کہ وہ خوراک کے تحفّظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اگلے سال کے لیے 8 ملین ٹن کی خریداری کرے گی۔ حکومت کے 1200 ملین روپے کی ریلیف پیکچ میں گندم کی خریداری کے لیے 280 ملین روپے بھی شامل ہیں اس سال اس بحران کی وجہ سے پیش آنے والے ترقی، مالی خسارے، اخراجات اور آمدنی میں کمی سے متعلق چیلنجز کے پیشِ نظر اگلے بجٹ کی توجہ کا مرکز معیشت کی بحالی ہو گا حکومت کو کسی سیاسی مصلحت میں پڑے بغیر ضرورت مندوں کو خوراک کی فراہمی کی طرف توجہ دینی چاہیے، جبکہ لوگوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے طریقے پر اعتراض یہ ہے کہ یہ کام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے اس بحران کے گزر جانے کے بعد بھی حالات کا معمول پر آنا کچھ عرصہ تک ممکن نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں غربت میں بھی بہت اضافہ ہو گا