افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے معاہدے کے بعد ایک بڑی پیش رفت ہوئی ہے کہ افغان طالبان مملکت کے لیے طالبان حکومت کے دور کا افغان قومی پرچم سامنے لے آئے ہیں اور اسے قومی پرچم قرار دے رہے ہیں کابل میں سفارتی ذرائع اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں اور صحافتی ذرائع نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے افغانستان کے پرانے جھنڈے کی جگہ نیا پرچم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔افغان صحافی طارق غزنیوال کی جانب سے طالبان کے جھنڈے کی تصویر شیئر کی گئی ہے۔ انہوں نے اس کو ”نئے افغانستان کا جھنڈا” کا نام دیا ہے۔ طالبان کی جانب سے متعارف کرایاجانے والا یہ جھنڈا سفید رنگ پر مبنی ہے جس پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے امارت اسلامی افغانستان (طالبان) کی جانب سے یہی جھنڈا استعمال کیا جاتا رہا ہے دریں اثناء افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح نے طالبان کے جھنڈے کو ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ” طالبان نے افغانستان کے قومی پرچم کو پاکستان کے اکوڑہ خٹک میں قائم مدرسہ حقانیہ کے جھنڈے سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جھنڈا صرف رنگوں سے رنگین کپڑا نہیں ہوتا۔ پرچم کے ساتھ جڑے احساسات اور علامات کو مدرسے کے برین واش کیے گئے لڑکے نہیں سمجھ سکتے۔”۔
افغانستان میں رونما ہونے والی یہ تازہ پیش رفت ملک کو استحکام کی طرف لے جائے گی یا اس کے نتیجے میں ایک بار کشیدگی جنم لے گی اور ملک ایک نئے بحران میں مبتلا ہو جائے گا۔ طالبان قیادت کی طرف سے اپنے دور کا پرچم ایک بار پھر سامنے لے آنا اس اعتماد کی دلیل ہے کہ امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے بعد ان کے اعتماد میں اضافہ ہوگیا ہے جو ان کی طاقت میں اضافے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو ملک کو استحکام کی طرف لے جاسکتا ہے لیکن یہ پیش رفت طالبان کے ضرورت سے زیادہ اعتماد کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جاسکتی ہے، آنے والے چند روز میں صورت حال واضح ہو جائے گی۔