پاکستان کے معروف صحافی ادیب شاعر نقاداور ٹریڈ یونین رہنما احفاظ الرحمٰن ہفتے کی شب کراچی میں انتقال کر گئے ان کی عمر 78 سال تھی۔انہیں طبعیت کی خرابی کے باعث چند روز قبل کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔احفاظ الرحمٰن کا شمارملک میں حقوق انسانی جمہوریت اور آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کرنے والے کلیدی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ملک میں فوجی اور جمہوری ہر طرح کی آمریت کے خلاف آواز بلند کی اور اس پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔انہوں نے اخبار جہاں روزنامہ مساوات روزنامہ جنگ اور روزنامہ ایکسپریس میں اہم صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں۔ وہ کارکنوں کے حقوق کی ہر جدوجہد میں صف اول میں رہے اور کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ احفاظ الرحمٰن 4 اپریل 1942 کو جبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے سوگواران میں بیوہ ایک بیٹا اور بیٹی چھوڑی ہے۔ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں انہیں آزادی صحافت کی جدوجہد کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جنرل ضیا کے دور میں آزادی صحافت کی جدوجہد پر ان کی کتاب سب سے بڑی جنگ کا اجرا 2015 میں ہوا تھا۔انہوں نے چین میں بھی 16 سال کا عرصہ گزار اور ثقافتی انقلاب کے دوران بیجنگ میں فارن لینگویجز پریس میں کام کیاتھا۔ احفاظ الرحمًن زمانہ طالب علمی میں این ایس ایف سے وابستہ تھے۔وہ کچھ عرصہ قبل گلے کے کینسر کی وجہ سے آواز سے محروم ہو گئے تھے اور بولنے کیلئے صوتی آلے کا استعمال کرتے تھے۔
احفاظ الرحمان صرف صحافی نہیں تھے، برصغیر کی قدیم صحافتی روایت کے مطابق ادب، شاعری اور ترجمے کے شعبوں میں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش تھیں، انھوں نے کئی دوسرے بین الاقوامی ادیبوں کے علاوہ نامور ادیب ہوزے مارتی کا ترجہ بھی کیا جس کا ایک ٹکڑا خود احفاظ الرحمان کی زندگی اور کردار پر صادق آتا ہے:
میں دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں
اس کے قدرتی راستے سے
وہ مجھے سفید پتیوں سے ڈھکی
میری قبر کی طرف لے جائیں گے
وہ مجھے کسی تاریک جگہ پر دفن نہ کریں
جیسے کسی غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
میں ایک صاحب کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب کردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورج کی طرف ہو