کورونا کی موجودہ وبا کو تیسری جنگ عظیم سے بھی بڑا چیلنج سمجھا جارہا ہے جس نے پورے کرہ ارض کو متاثر کیا ہے۔ اس وبا کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، آنے والے دنوں میں اس وبا کی لپیٹ میں آکر کتنے لوگ داعی اجل کو لبیک کہہ دیں گے؟ یقین سے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کتنا بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
اس وبائی صورت حال کا ایک اور بڑا نتیجہ اقتصادی بحران کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ بے روز گار ہورہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خود پاکستان میں یہ تعداد لاکھوں کو پہنچ رہی ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت نے پاکستان کی صنعتوں کو پر کشش مراعات کی پیش کش کی ہے لیکن اس کے باوجود بے روزگاری اور غذائی چیلنج سے نمٹنا مشکل ہوگا۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے سماجی ماہرین اور درد مند اہل دل ضرورت مندوں کی مدد میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ممتاز پاکستانی دانش ور ولی زاہد نے ایک منفرد تجویز پیش کی ہے جس کے مطابق کچھ خرچ کیے بغیر ضرورت مندوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔
ولی زاہد نے تجویز پیش کی ہے کہ گھر میں ایسی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں جو لوگوں کی ضروریات سے زاید ہوتی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیزوں کو براہ راست عطیہ کیا جاسکتا ہے یا ان سے حاصل ہونے والی آمدنی عطیہ کی جاسکتی ہے۔ ولی زاہد کے مطابق اس سلسلے کی ابتدا وارڈروب سے کی جاسکتی ہے۔ انسان کے پاس اپنے پہننے کے کپڑوں میں بہت کچھ ضرورت سے زاید ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گھڑیاں، موبائیل فون، نمائشی اشیا، دھوپ کے مہنگے چشموں کے علاوہ بہت سی ایسی چیزیں گھر میں موجود ہوتی ہیں، ایثار سے کام لیا جائے تو وہ ضرورت مندوں کی مدد میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
ولی زاہد اپنی اس تجویز کو تحریک کی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔