ڈاکٹر مقصود جعفری ملک کے ممتاز اہل قلم اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ان کے شعر میں روایت اور عصری آشوب یوں گھل مل جاتا ہے جیسے دکھ اور غم مل جل کر زندگی کی شکل اختیار کر تے ہیں۔ڈاکٹر جعفری صرف شاعر نہیں محقق اور نقاد بھی ہیں ۔ملک کے ممتاز اخبارات میں ان کے کالم شائع ہوتے ہیں جن میں زندگی کے ہر موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جعفری نے کشمیر کی تحریک آزادی پر بھی قابل فخر علمی کام کیا ہے جس نہ صرف پاکستا، کشمیر کے دونوں بلکہ دنیا بھر میں پزیرائی کی جاتی ہے اور جدو جہد آزادی کے موضوع پر حوالے کا بنیادی کام قرار دیا جاتا ہے۔ “آوازہ” آنے والے دنوں میں تحریک آزادی کشمیر کے موضوع پر بھی ان کا علمی کام پیش کرے گا جو خطے کی موجودہ صورت حال میں نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔
ان کی یہ غزل کورونا کی وبا کے پس منظر میں انسانی محسوسات کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔
ادارہ” آوازہ”توقع کرتا ہے کہ قومی، تہذیبی اور ادب کے شعبوں میںسنجیدگی خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں آنے والے پلیٹ فارم کو ڈاکٹر مقصود جعفری کی علمی،ادبی اور قلمی سرپرستی حاصل رہے گی۔
***************
عرش سے کیا پھر کوئی حکم سزا آنے لگا
خود بخودلب پر مرے حرف دعا آنے لگا
آنسوؤں کی اک جھڑی ہے جو کہ رکتی ھی نہیں
اب دعاؤں میں بھی ذکر کربلا آنے لگا
دنیا داری کے حصار جبر میں جو تھے گھرے
چشم نم میں اشک عصیاں برملا آنے لگا
اب دعاۓ نیم شب میں بیم مرگ ناگہاں
بن کےحرف باریاب مدعا آنے لگا
غنچہ ھاۓ زندگی مرجھا رھے تھے شاخ پر
پھر چمن میں موسم باد صبا آنے لگا
حادثات زندگی میں زندگی کا راز ھے
درد کے درمان میں راز شفا آنے لگا
جو بھلا بیھٹے تھے ذات کبریا کو جعفری
یاد ان کو ھر گھڑی نام خدا آنے لگا