ایک زمانہ تھا کہ آتش جوان تھا
۔۔جوانی دیوانی۔
۔۔نہ کوئ فکر نہ پریشانی۔
۔۔حافظہ لاجواب۔۔۔
۔۔زندگی کھلی کتاب۔۔
آنکھین چار (چشمے کے ساتھ)
۔باتین چٹ خارے دار۔۔
حاضر جوابی اور بزلہ سنجی عروج پر۔۔
۔۔فقرے بازی کمال پر۔۔۔
مگر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔یعنی شادی ہوگئی۔۔۔
۔۔شادی سے پہلے کی بات ہے کہ ہم ابن انشاء سے بہت متاثر تھے۔۔خاص طور پر ان کی اردو کی آخری کتاب تو تقریباً ازبر تھی۔۔ظاہر ہے کالم نگاری مین بھی اس کا رنگ جھلکتا تھا۔۔
۔۔کچھ کالم تو چھپ گئے۔۔باقی چھپا لیے گئے۔۔کیونکہ ہر کوئ ابن انشاء کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی لطف اندوز ہوسکتا ہے
اور نہ ہی برداشت کرسکتا ہے۔جس کی وجہ سے یار لوگون کی ناراضگی کا دھڑکا بھی تھا۔۔
مگر جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے۔کہ شادی ہوگئی اور پھر چند سال کیا۔۔چالیس سال کا قصہ ہے۔۔نہ صرف کالم لکھنے لکھانے سے گئے بلکہ بقول شاعر
۔۔اور بھی غم ہین زمانے مین محبت کے سوا۔۔۔
۔۔مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔۔
لہٰزا پھر جو غم روزگار اور غم زمانہ لاحق ہوا تو۔۔۔۔
کیسی شاعری۔۔کیسی کالم نگاری
۔۔کیسی حاضر جوابی۔۔کیسی بزلہ سنجی۔۔۔
۔۔۔کہان کا حافظہ۔۔کہان کی فقرے بازی۔۔
چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔بہت جلد ہوش ٹھکانے آگئے۔۔۔۔
۔۔سب کچھ چھوٹ گیا۔۔سب کچھ لٹ گیا۔۔
پھر کیاتھا گوشہ گمنامی اور عافیت کوشی مین پناہ لے لی۔۔
اب جب کہ اس بات کو چالیس سال یعنی چالیسواں ہونے کو ہے۔۔اور کرنے کو کچھ نہی تو سوچا کہ دوبارہ کالم نگاری کی جائے۔۔احباب نے بھی کافی حوصلہ افزائ کی۔۔
اور ہم نے بھی ان کی باتوں میں آکر تیراک نہ ہوتے ہوئے بھی کھلے اور گہرے سمندر میں چھلانگ لگادی۔۔اب اللہ مالک ہے۔۔ابھریں یا ڈوبیں۔۔ابھی تو موجون کے رحم و کرم پر ہیں۔۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔۔یعنی کالم نگار کی بپتا۔۔
اب جو دوبارہ لکھنا شروع کیا تو ظاہر ہے کوئ کام بھی ہو آپ اورون سے تو چھپا سکتے ہین لیکن اللہ سے اور بیگم سے نہین
اللہ تعالٰی تو خیر رحمٰن ورحیم ہے مگر بیگم کو تو موقع چاہئے
۔۔اللہ دے اور بندہ لے۔۔فرمانے لگین آپ کا کالم کوئ پڑھتا بھی ہے کہ نہین۔۔پتہ نہی کیا کیا اوٹ پٹانگ لکھتے رہتے ہین۔ہمارے تو سر کے اوپر سے گزر جاتاہے۔۔اب انہین کیا پتہ کہ ہماری تخیل پرواز کتنی بلند ہے۔اگر کچھ نیچے ہوتی تو سر پر سے گزرنے کے بجائے بھیجے یعنی دماغ سے گزرتی اور سمجھ مین بھی آجاتی۔۔خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔۔
اب نتیجہ یہ ہے کہ اتنے کالم ہم پر نازل نہی ہوتے جتنے مشورے ہماری بیگم ہمین دے دیتی ہین۔۔کہ فضول لکھنے سے بہتر ہے کہ کچھ کام کی بات لکھیں۔۔
ہم نے پوچھا۔مثلاً۔۔کہنے لگین۔حالات حاضرہ۔۔سیاست۔۔معاشرتی مسائل وغیرہ۔۔
ہم نے کہا کہ حالات حاضرہ تو وہ لکھے جو خود حاضر ہو۔۔ہم تو جب سے آپ کی زلف گرہگیر کے اسیر ہوئے ہین۔۔خود غیر حاضر ہیں۔۔
دوسرے سیاست پر لکھنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔اس میں دخل اندازئ پولس کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔
رہ گئے معاشرتی مسائل تو ان پر پہلے ہی اتنا لکھا جاچکاہے کہ مسائل سے زیادہ وسائل خرچ ہوگئے ہین مگر حل ندارد۔۔۔
پھر معاشرتی مسائل کو تو آپ ہم سے زیادہ جانتی ہیں اور خود کفیل ہیں۔۔آپ کیون نہی لکھتیں۔۔
کہنے لگین بھئی یہ کام تو بہت مشکل ہے ہمین تو بس ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے اور ان کو گھر پر ریپیٹ کرنا اچھا لگتا ہے۔۔جیسے آپ کو خبریں سن کر ان کو پھیلانے مین مزہ آتا ہے۔۔۔۔لو جی یہان بھی بازی مات۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب اتنے مزاکرات اور مات کھانے کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہین۔کہ ہر وقت کا ہنسی مزاق اچھا نہیں ہوتا۔۔اب کچھ سنجیدہ بھی لکھ لیا جائے
مگر کیا کریں کہ اس وقت کورونا کی وباء پھیلی ہوئی ہے
۔۔اور لوگ پہلے ہی بہت سنجیدہ اور رنجیدہ ہیں
۔۔فکر مند اور پریشان بھی ہیں۔
۔ایسے مین اچھا یہی ہے کہ کسی کے چہرے پر مسکان سجادی جائے۔۔
۔۔اور کوئ بچون کی طرح کھل کھلا کر ہنس دے۔۔
تاکہ ماحول مین جو اداسی چھائ ہے۔۔اسے کچھ تو کم کیا جاسکے
۔۔اور لوگ کہیں کہ اس کورونا کی ایسی تیسی۔۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں کورونا کےسوا۔