حضرت شال محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کا مزار سرکلر روڈ پر بیرون دہلی و اکبری لاہور واقع ہے.
شاہ محمد غوث ١۰۹١ھ میں پشاور میں پیدا ہوئے. آپ کے والد ابوالبرکات سید حسن قادری بھی معروف بزرگ ہیں, جبکہ آپ کی والدہ محترمہ کو “رابعہ عصر” کہا جاتا تھا. آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے شیخ عبدالقادر جیلانی سے مل جاتا ہے. ابتدائی تعلیم والد گرامی سے حاصل کی. ١۸ سال کی عمر میں آپ نے علوم ظاہرہ سے فراغت حاصل کرلی. تفسیر, حدیث, صرف و نحو, منطق, الہیات, بلاغت اور بہت سے علوم پر آپ کو دسترس حاصل تھی. عربی ادب سے آپ کو بے حد لگاؤ تھا. حصول علم کے لیے آپ نے کابل, جلال آباد, اٹک, راولپنڈی, لاہور, دہلی, اکبر آباد, سیام چوراسی, اجمیر و دیگر بہت سے علاقوں کا سفر بھی کیا. تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ تقریباً چھ برس گوشہ نشین رہے پھر آپ نے اپنے والد صاحب سے سلسلہ قادریہ میں بیعت حاصل کی اور انہوں نے کو آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا. کچھ عرصے بعد آپ کے والد کی وفات ہوگی تو آپ سیر و سیاحت کے لیے نکل گے. آپ نے اپنے ہم عصر کئی بزرگوں سے ملاقاتیں کیں جن میں ,حافظ عبدالغفور کاشمیری, شیخ یحیی, شاہ لطیف المعروف بری امام, اخوند محمد نعیم, شیخ حامد قادری, میاں عبدالاحد,جان محمد حضوری, میاں نور محمد مدقق قابل ذکر ہیں. شروع میں آپ نے پشاور میں بھی درس دیا لیکن پھر لاہور تشریف لے آئے اور مستقل یہیں رہے. آپ اپنی ایک تصنیف میں فرماتے ہیں”اس کے بعد لاہور شہر کا عزم کیا جو کہ بہت پرانا شہر ہے اور بزرگان کرام کا مسکن ہے. میں نے بہت سے مجازیب, گوشہ نشینوں, سالکوں اور اہل شوق کو دیکھا اور کئی مزارات پر راتیں بسر بھی کیں. ,چناچہ حضرت میاں میر کے مقبرے پر ایک رات ان کی زیارت ہوئی. آپ نے ایک شغل عطا فرمایا اور فرمایا کہ اس شغل کے ۔
ساتھ مشغول رہنا..”
آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں. ڈاکٹر ام سلمی گیلانی صاحبہ نے آپ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان “محدث کبیر شاہ محمد غوث کی علمی و دینی خدمات” تحریر کیا ہے. ڈاکٹر صاحبہ نے آپ کی کتب پر تفصیل سے بات کی ہے. آپ کے سوانح نگاروں کے بقول آپ نے 70 سے زائد کتب لکھیں جبکہ آپ کے مزار پر درج ہے کہ آپ 400 کتب کے مصنف ہیں. البتہ اب آپ کی فقط چند کتب ہی دستیاب ہیں جن میں زیادہ تر قلمی نسخے ہیں. چند ایک شائع بھی ہوئی ہیں. آپ کی درج ذیل کتب کا عموماً ذکر کیا جاتا ہے. جواز ذکر جہر, رسالہ اسرار توحید, رسالہ اصول حدیث,شرح صحیح بخاری, شرح قصیدہ غوثیہ,رسالہ در بیان کسب سلوک و بیان طریقت و حقیقت.
آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا ہے نیز آپ مفسر قرآن بھی ہیں. آپ نے شرح بخاری شریف میں تمام اسماء الرجال کو مکمل اس عمدگی سے بیان فرمایا ہے کہ حضرت علی احمد صاحب نے جب آپ کی شرح ملاحظہ فرمائی تو فرمایا “اس طرح معلوم ہوتا ہے جیسے حضرت کے سامنے لوح محفوظ تھی. جس کو دیکھ کر آپ یہ شرح لکھ رہے تھے.” مولانا عبیدالحق صاحب محدث وار بنگوی آپ کی اس عظیم تصنیف کے متعلق کہتے ہیں “جس طرح نووی مسلم شریف کی دیگر شروح سے بے نیاز کردیتی ہے. اسی طرح بخاری شریف کی یہ شرح بخاری کی اور شروح سے بے نیاز کردیتی ہے.” آپ کے حوالے سے بہت سی کرامتیں بھی مشہور ہیں جیسا کہ آپ نے ایک نابینا اور ایک گونگے کو دم کر کے ٹھیک کر دیا. لیکن دو واقعات ایسے ہیں جن کا کثرت سے ذکر ملتا ہے. بیان کیا جاتا ہے کہ نادرشاہ جب ہند پر حملے کے لیے آیا تو اس نے آپ سے دعا کے لیے کہا اور آپ کو دربار میں حاضر ہونے کا بھی پیغام بھیجا. آپ نے بادشاہ کو صاف جواب لکھ بھیجا کہ ہم قطعاً دربار میں نہیں آئیں گے. اس پر نادرشاہ نے آپ کو تادیبی خط روانا کیا مگر آپ پھر بھی نہ گے. چند روز میں بادشاہ کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہوا تو اس کو مشورہ دیا گیا کہ آپ حضرت سے معافی مانگیں یہ سب ان کی توہین کے باعث ہو رہا ہے. اس پر نادر شاہ نے آپ سے در گذر کی درخواست کی. ایک اور قصہ جو آپ کے متعلق معروف ہے وہ بقول نور احمد چشتی و مفتی غلام سرور ان کا چشم دید ہے.
وہ بیان کرتے ہیں کہ جب رنجیت سنگھ کے بعد کھڑک سنگھ جانشین حکومت لاہور ہوا تو, اس کے بیٹے نونہال سنگھ نے جو بااختیار حاکم تھا. حکم دیا کہ لاہور کی فصیل کے باہر چار ہزار قدم تک زمین صاف کی جائے, دلاروس یا بعض کے مطابق ایلارڈ اِس کام پر مقرر ہوا. اس نے مکانات گرانے شروع کر دیئے, آپ کے مزار کی چار دیواری بھی گرائی گئی اور تمام درخت کاٹ دیے گئے. جب اندرون دیوار خاص مزار کی چار دیواری گرائی گئی تو قدرت الٰہی سے اسی روز کھڑک سنگھ مر گیا, اور نونہال سنگھ جب نعش جلا کر آیا تو سلامی کی توپوں کے زلزلے سے قلعے کی دیوار کا پتھر جدا ہوکر نونہال سنگھ کے سرپر آ گرا, اور وہ جوان مرگ ہوا. اس سے اس کی والدہ چندر کور ڈر گئی اور حکم دیا کہ آپ کا مزار نہ گرایا جائے. چنانچہ گرا ہوا مکان اِسی وقت دوبارہ تعمیر کردیا گیا. اس قصے کو کہنیالال, ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور آپ کے تقریباً سبھی سوانح نگاروں درج کیا ہے. لیکن یہ کرامت سے زیادہ اتفاقیہ معلوم ہوتا ہے. خیر ایسے بہت سے مستند واقعات موجود ہیں جن سے آپ کی اصل کرامت یعنی مال و دولت سے عدم دلچسپی اور استقامت سے شریعت محمدی و صراط مستقیم پر چلنے کا پتا چلتا ہے.
اورنگ زیب کی ایک سند کراچی عجائب گھر میں موجود ہے, جس کے مطابق آپ کے والد کی وفات کے بعد آپ کو ٤۰ جریب زمین عطا ہوئی مگر آپ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا. اسی طرح آپ کو ایک مرتبہ اشرفیاں پیش کی گیں تو آپ نے وہ بھی نہ لیں. علامہ عالم فقری آپ کے درس و تبلیغ کے متعلق لکھتے ہیں “جہاں تک آپ کی تبلیغی مساعی کا تعلق ہے اس کے دو حصے ہیں اول عام مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنانا دوئم غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کرنا. اثنائے سیاحت میں آپ جن جن مقامات سے گزرے, بہت سے لوگ آپ کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر مشرف بااسلام ہوگئے. اور آپ کی مساعی جمیلہ سے ہزاروں گم کردہ راہ مسلمان, حقیقی مسلمان بن گئے.” آپ کے درس میں دُور دُور سے لوگ تشریف لاتے تھے. امیر شاہ قادری صاحب اپنی کتاب “تذکرہ علماء و مشائخ سرحد” میں ذکر کرتے ہیں “حدیث شریف کا درس اتنا وسیع تھا کہ علاوہ پنجاب و سرحد کے کابل, ہرات و غزنی سے لوگ جوق در جوق آ کر شامل ہوتے. نیز تمام طلباء کی رہائش, لباس اور طعام بند و بست بھی آپ خود فرماتے.” آپ کو سلسلہ قادریہ کے علاوہ سلسلہ نقشبندیہ, چشتیہ اور سہروردیہ میں بھی اجازت و خلافت حاصل تھی.
آپ کے سن وفات کے متعلق اختلاف ہے. مفتی غلام سرور, غلام دستگیر نامی, محمد لطیف ملک, محمد دین کلیم و سید محمد لطیف نے 1152ھ بتایا ہے جبکہ عالم فقری و وارث کامل نے 1144ھ درج کیا ہے. محمد دین فوق نے کافی بحث کے بعد آپ کا سن وفات 1178ھ اخذ کیا ہے. لیکن ڈاکٹر ام سلمی گیلانی صاحبہ نے صاحب طہماسپ نامہ کے ایک بیان کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ آپ کا اصل سن وفات 1173ھ, بمطابق ١٧٥۹ء ہے. جہاں اب آپ کے مزار ہے اس جگہ معمار بادشاہی مسجد فدائی خان کوکہ کی حویلی ہوا کرتی تھی. جو کہ شاید دوران زوال مغل حکومت مٹ گئی. خیر آپ کے مزار کی اصل عمارت کو سکھ دور میں کافی نقصان پہنچا. اس کے بعد غلام نبی نامی ایک شخص نے یہاں مسجد و دیگر عمارات تعمیر کروائیں. لیکن اب یہ بھی موجود نہیں.
مزار کی موجودہ عمارت و مسجد سن ١۹٧۸ء میں تعمیر ہوئی ہے. دراصل مسجد کی توسیع کے لیے پرانی عمارت کو مسمار کر دیا گیا. حتی کے یہاں موجود قدیمی قبرستان جس میں کئی معروف احباب کی بھی قبریں تھیں, اس پر لینٹر ڈال کر اس کو مسجد کا صحن بنا دیا گیا. اب قبریں تہہ خانے میں ہیں جن تک جانے کا کوئی رستہ نہیں جبکہ اوپر صحن میں نشاندہی کے لیے نمبر لگائے گے ہیں. موجودہ عمارت کافی ویسع ہے اور خوبصورت بھی لیکن قدیم عمارت کو یوں ختم کرنا مناسب نہ تھا. شاہ محمد غوث کے مزار پر چند چیزیں دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ایک تو یہاں صاحب مزار کے متعلق کافی معلوماتی تختیاں لگائی گئی ہیں دوسرا یہاں پر باقاعدہ فضول حرکات و رسومات کی روک تھام کے لیے بورڈ لگایا گیا ہے. شاہ محمد غوث کے مزار کے احاطے میں خان بہادر برکت علی خان, والئی افغانستان, چوہدری رحمت علی کوتوال لاہور, خواجہ عزیز رئیس کشمیر, خان بہادر نذر محمد, سید بہادر شاہ, میاں فیروز الدین احمد و دیگر کئی معروف شخصیات مدفون ہیں. لیکن اب ان کی قبریں نہیں دیکھی جا سکتیں. نقوش لاہور نمبر میں یہاں موجود چند قبور کا تذکرہ موجود ہے. شاہ محمد غوث کے مزار کے ارد گرد موجود عمارات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں. مزار کے بالکل ساتھ لائبریری ہے جو کہ دراصل مولانا محمد حسین آزاد کا کتب خانہ تھا. مزار کے سامنے کبھی رسائل و اخبارات کے دفتر ہوا کرتے تھے. احرار اور اس کے ترجمان روزنامہ “آزاد” کا دفتر بھی یہیں تھا. فلمی جریدے “اداکار” اور روزنامہ “احسان” کا دفتر بھی ساتھ ہی ہوتا تھا. مولوی انشاء اللہ خان نے بھی اپنے اخبار “وطن” کے لیے یہاں ایک عمارت تعمیر کروائی تھی. اس عمارت کے حوالے لاہور میں ایک واقعہ کافی معروف ہے. کہا جاتا ہے کہ مولوی صاحب نے لاہور سے مدینہ تک ریل چلانے کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے لوگوں سے چندہ جمع کیا. اسی چندے سے یہ عمارت تعمیر ہوئی. جب لوگ ریل کا پوچھتے تو مولوی صاحب بتاتے کے یہ اسی کے لیے اسٹیشن بنایا جا رہا ہے. خیر اب تو اس علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا ہے. نور احمد چشتی نے مزار پر موجود جن تختیوں کا ذکر کیا ہے اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں. تعمیر نو میں نہ جانے وہ ضائع ہو گئیں یا کسی نے شاید محفوظ کی ہوں البتہ مجھے مزار پر وہ کہیں نہیں دکھیں. اہلیان لاہور تو تقریباً شاہ محمد غوث کو بھول ہی چکے ہیں. حیرت کی بات ہے کسی دوست کو اب تک لاہور کا یہ رخ نظر نہیں آیا کہ یہ دھرتی کبھی علم حدیث کا مرکز تھی. یہاں ایسے کئی مدارس تھے جہاں متلاشیان حق پوری دنیا سے آتے تھے. احباب سے گزارش ہے کہ لاہور میں حضرت علی ہجویری کے علاوہ بھی جلیل قدر ہستیاں مدفون ہیں. کبھی فرصت نکال کر ان کے آستانہ پر بھی حاضری دیں. اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ لاہور کے اس پہلو پر بھی تحقیق کریں. اس شہر میں کئی علماء نے جنم لیا زندگیاں گزاری. اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے. کئی مدارس ہیں, کتنی ہی جامعات ہیں جن میں شعبہ علوم اسلامیہ بھی ہے مگر اب تک اس حوالے سے میں نے کوئی تحقیقی کتاب نہیں دیکھی. تمام احباب کو چاہیے کہ مزار پر بھی جائیں اور صاحب مزار کی علمی کتب سے بھی فیض یاب ہوں.