
میرا چھوٹا بیٹا ارحم،، پورے خاندان کی آنکھ کا تارا ہے۔۔ اس کی آنکھیں قدرتی طور پر نیلی ہیں،، بالکل کسی یورپین یا میڈٹرینین بچے کی طرح بڑی بڑی اور خوبصورت۔۔ اوپر سےکشمیری النسل خاندان کا سپوت، گورا چٹا رنگ۔ پورا خاندان بلائیں لیتا رہتا ہے، دادا، دادی،، نانا،، نانی،، صدقے واری ہوتے رہتے ہیں۔۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا جارہا ہے،،اس کو اپنی اہمیت کا احساس ہوچلا ہے۔۔ کبھی دادا سے لال نوٹ اینٹھ لیے،، توکبھی دادی سے شکایت لگا کراپنی ماں کو کوسنے دلوادیئے۔۔ کبھی میں سو رہا ہوں تو دھڑلے سے موبائل فون پر گیم کھیل کھیل کر بیٹری کی واٹ لگادی،، بہن کے بال نوچ کر ماں کی گود میں چھپ جانا تو روزکا معمول ہے۔۔جب سے منحوس کورونا نے سیاپا ڈالا ہے،، بچوں کےساتھ ماں باپ کو بھی گھروں میں قید کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔۔خاص طور پر خاتون خانہ کا امتحان مزید سخت ہوگیا ہے۔۔ ایک تو کام والیاں بھی نہیں آرہیں،، او ر اس پر بچوں کی سارا دن ہلڑ بازی سہنا ،، کسی خاندانی حوالدار کی چھترول سہنے سے زیادہ کٹھن کام ہے۔ ۔ ایسے میں نزلہ گرتا ہے تو مرد اول پر۔۔ اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔۔ لیپ ٹاپ پر اچھا بھلا’محسن چاوشی‘ کا گانا’ سنگ صبور‘ سنتا ہوا،،’ گلشیفتےفرحانی‘ کے حسین تصور میں گم تھا کہ ایک بم پھٹا۔۔
’ذرا اپنی اولاد کو بھی سنبھال لیں، صرف میری ہی ڈیوٹی نہیں ہے۔۔سارا دن یہ فارسی گانے سن کر کیاملتا ہے؟؟،، سمجھ میں بھی آتا ہے کچھ؟چھٹیوں میں تو ایسے آرام سے بیٹھے ہیں جیسے ہم کو سوئٹزرلینڈ گھمانے لے آئے ہیں۔۔ ‘
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کون سے سوال کا جواب پہلے دوں۔۔ ذہن میں ہر سوال کی اہمیت کا اندازہ لگا رہا تھاکہ ، کس سوال کے جواب سے کیا ردعمل سامنے آسکتا ہے کہ،، ایک اور سوال پھٹا۔۔
’کیا بول رہی ہوں میں۔۔؟‘
یہ وہ سوال ہوتاہے جو پہلے سوال کا تین سیکنڈ تک جواب نہ ملنے پر داغا جاتا ہے۔۔ ابھی میں پہلے سوالات کو جذب ہی کررہا تھا،، کہ اس سوال کا جواب دینا بھی لازمی ٹھہرا،، یعنی منہ سے کچھ نہ کچھ بولنا ضروری ہوگیا۔۔ اور پہلے تین سیکنڈ کھونے کے بعد ،، اگلے تین سیکنڈ ضائع کرنے کا مطلب تھا کہ اگلے تین ہفتوں تک ازدواجی آفٹرشاکس برداشت کرنا۔۔
’کک ۔۔کیا بول رہی ہو تم۔۔؟‘ جی جناب ،، اور یہ ہوتا ہے وہ جواب،، جب آپ کا دماغ اور زبان ربط چھوڑ جائیں۔۔
’میں نے کہا کچھ کام کرلیں،، بچوں کو دیکھ لیں،، زندگی تباہ کردی ہے چار دنوں میں،، ۔۔۔‘بیگم غرائی۔۔
’ چہ دنیای رو بہ زوالی دارم۔۔‘بیک گراؤنڈ میں میرے دل کی ترجمانی کرتی ہوئی محسن چاوشی کی گھمبیر آواز گونجی۔۔۔
’اس منحوس کے بچے کو بند کردیں خدا کے واسطے۔۔۔‘ اس جملے میں’ خدا کا واسطہ‘ بالکل غیرضروری تھا،، کیونکہ جملے کے شروع میں نشر ہونے والا ’منحوس کا بچہ‘ بذات خود ایک آرڈر لیے ہوئے تھا۔۔ میں نے ہڑبڑا کر لیپ ٹاپ کی چارجنگ نکال دی۔۔ لیکن اس سے کیا ہوتا؟لیپ ٹاپ بیٹری پر آگیا۔۔منحوس کا بچہ گاتا رہا،،’ توی شبات ستاره نیست ،،موندی و راه چاره نیست‘۔۔ ساتھ ہی ’گلشفتہ فرحانی ‘ کی ویڈیوکا وہ حصہ اسکرین پر لہرانے لگا،، جس میں اس نے اندر والے کپڑے باہر پہنے ہوئے تھے۔۔ مطلب ان تین سیکنڈز کی بیچارگی کا عالم آپ سمجھنے کی کوشش کریں ،، جو مجھ پر بیت رہے تھے۔۔ میں نے دھڑام سے لیپ ٹاپ کی اسکرین اتنے زور سے بند کی مجھے بھی ڈر پیدا ہوگیا کہ کہیں گلشفتہ کو ویڈیو میں کوئی چوٹ نہ لگ گئی ہو۔۔
لیپ ٹاپ بند ہونے سے میری آدھی مشکلات حل ہوئیں تو میں نے سب سے بڑی مشکل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔۔ اپنی پوری مردانگی جمع کرکے،، سینے کا زور لگا کر،، منمنایا۔۔’ارے ۔۔کرنا کیا ہے؟ بتاؤ تو سہی جانو۔۔ ‘
لفظ جانو میں اتنی بے اعتباری تھی کہ مجھے خود پر ہنسی آئی،، لیکن شکر ہے ہونٹوں تک نہیں آئی ورنہ آپ سمجھدار ہیں،، کہ حالات کس موڑ تک پہنچ جاتے۔۔
’اس کو سنبھالیں۔۔ اور مجھے دو گھنٹے سکون سے کام کرنے دیں،، پورا گھر سمیٹنا ہے۔۔‘۔۔ یہ بول کر بیگم نے چھوٹے کو میری طرف دھکیلا۔۔ اب ذرا تصور کریں کہ چار ، پانچ سال کا بچہ کتنے قد کا ہوگا؟یعنی ہم بڑوں کی ٹانگوں کے برابر تک سر آئے گا،، ہاں،، تقریباً اتنا ہی،، کم و بیش۔۔ تو دھکیلنے سے یہ ہوا کہ ،، بچے کا سر جو ’فری فلو موشن‘ میں تھا،، سیدھا ٹھک کرکے،، مقامات آہ و فغاں سے جا ٹکرایا۔۔ اس ضرب مومن سے ’ستارے جو چمکے میری چشم پریشاں میں‘،،ان کا احوال منیرنیازی مرحوم کو ہی بتاپاتا،، مگراس وقت ’آہ کو سینے میں اور زبان کو دانتوں میں دبا لیا۔۔ مقام مضروبہ کو ہتھیلیوں سے داب لینے اور سہلا لینے کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔۔ پنجوں کے بل بیٹھا تو ،، بیٹے کے فیس ٹو فیس ہوگیا۔۔
اس کی آنکھیں رنگ تبدیل کررہی تھیں۔۔ کبھی ہلکی نیلگوں، ہلکا ہلکا سبز رنگ، کبھی تھوڑی گہری نیلی۔۔ ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا، جارہا تھا۔۔ میں اس میں محو ہوگیا۔۔ میکانیکی انداز میں پوچھا۔۔’کیا ہوا بچے ؟ ماما کو تنگ کیوں کررہے ہو؟‘۔۔
ارحم نے شڑاپ سے منہ میں موجود لولی پوپ کو باہر نکالا اور آنکھیں گھماتے ہوئے بولا۔’ماما کھانا نہیں دے رہیں، بھوک لگی ہے۔۔‘عین اس وقت عقدہ کھلا کہ رنگین آنکھوں میں نمی ہوتو،، روشنی میں رنگ آنے جانے کا کھیل کھیلتے ہیں۔۔
مجھے پتہ تھا کہ بچوں کو ایک گھنٹہ ہی ہوا ہے ناشتہ کیے،، اور بیگم نے ہانڈی بھی چڑھا رکھی ہے،، لیکن کم از کم اس میں بھی مزید ایک گھنٹہ لگتا۔۔ مگر پھر بھی بچے کی بات سن کر دل میں ایک تڑپ اٹھی۔۔
’بیٹا آپ باجی کے پاس کمرے میں چپ چاپ بیٹھو،، میں آپ کیلئے شوارما لاتا ہوں۔۔ ماما کو تنگ نہیں کرنا پلیز۔۔ ابھی 20منٹس میں آیا۔۔‘ بیٹے کی آنکھوں میں بہتے رنگ رک گے،، ہونٹوں پر ہنسی آگئی۔۔ اور ’پرامس ،، پرامس ،،‘ کہتا اپنی بہن کے کمرے میں جاکر چھپ گیا۔۔ کچن سے بیگم کے بڑبڑانے کی آواز برابر آرہی تھی۔۔ میں نے دروازہ پھلانگتے ہوئے آواز لگائی۔۔ ’ارُرو (ارحم)کیلئے کچھ لینے جارہا ہوں،، دس منٹ میں آیا۔۔ ‘ بیگم نے جواب میں کیا کہا،، میں نے نہیں سنا،، کچھ جلا کٹا ہی کہا ہوگا۔۔
گاڑی نکالی، خالی سڑک پر بھگائی اور سیدھا مین مارکیٹ کے چوک سےمتصل ایک گلی میں جاکھڑا ہوا۔۔ مجھے معلوم تھا کہ کہاں جانا ہے۔ گلی میں تیسرے مکان کی کھڑکی کھُلی تھی۔مجھ سے پہلے چار لوگ پہلے ہی ماسک لگائے وہاں موجود تھے۔۔میں نے بھی کھڑکی پر پہنچ کر شہاب کوآواز لگائی۔۔’شابو،، تین شوارمے لگادے بھائی،، میرے والے،، چٹنی مصالحہ ہلکا،، چکن ڈبل۔۔‘
شابونے مجھے دیکھا،، کھڑکی سے سرباہرنکالا،، میں سمجھا مجھ سے کچھ راز کی بات کہنے لگا ہے، میں نے بھی سر آگے کیا،، لیکن اس نے اپنے مصالحہ دار ہاتھوں سے میرا سر پرے کیا،، اور گٹکے کی پیک پچکار کر، اپنے سر کی ٹوپی سیٹ کرکے بولا۔۔ ’استاد،، پچاس روپے اوپر مال چل رہا ہے،، پیچھے سے سپلائی بند ہے۔۔ چلے گا۔؟؟‘
’ابے کمینے،، اب کیا بولوں تجھ کو۔۔ اپنی مرضی کرلے بھائی۔۔ لیکن جلدی استاد تھوڑا،، ‘۔۔ میں نے بیچارگی دکھائی۔۔
’بس پانچ منٹ رکو،، ایک سگریٹ پھوکو،، ‘ شابو نے مجھ سے پہلے والوں کو شاپر پکڑاتے ہوئے کہا۔۔
میں نے سگریٹ ٹٹولی تو پتہ چلاکہ گھر بھول آیا ہوں۔۔ دھت تیرے کی۔۔ گاڑی سے ٹیک لگا کر میسجز چیک کرنے موبائل نکالنے لگا تو +میں نے نوٹ کیا کہ شابو کے کھڑکی کے ساتھ ایک بچہ کھڑا تھا،، اپنے منہ میں ایک تیلا گھما رہا تھا،، میلی شلوار قمیض،، سر میں دھول،، گندے ہاتھ پیر۔۔ لیکن یہ تو کوئی خاص بات نہ ہوئی،، ایسے ہزاروں بچے ہیں کراچی میں ۔۔ پتہ نہیں کم بخت میں کیاتھا؟
میں نے اشارے سے پاس بلایا، وہ پاس آیاتو پتہ چلا کہ میرا دل کیوں رکا تھا۔۔
اس کی آنکھیں بھی نیلی تھیں۔۔ بالکل کسی یورپین یا میڈٹرینین بچے کی طرح۔۔
میں خودبخود پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔’کیا ہوا بچہ؟ باہر کیوں گھوم رہے ہو؟ اور یہ تیلا کیوں چبا رہے ہو،،گندا ہوتا ہے۔۔‘ مجھے اس سے بات کرنے کا بہانہ چاہیے تھا،، مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ وہ کون ہے اور باہر کیوں گھوم رہا ہے۔۔ مجھے اس کی آنکھیں دیکھنی تھیں۔۔ کیا سب نیلی آنکھیں ایک جیسی ہوتی ہیں؟
’بھوک لگی ہے،، اماں روٹی نئیں دے رئی۔۔‘اس کی آنکھوں میں رنگ بہنے لگے۔۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا سب آنکھوں میں نمی سے رنگ اٹھکیلیاں کرتے ہیں؟ میں اس کی آنکھوں میں محو تھا۔۔ پیچھے سے شابو نے شوارموں کا شاپر میرے کندھے پر رکھا۔۔
’استاد،، پچھلے ہفتے لاک ڈاؤن کے پہلے دن باپ مر گیا۔۔ دو دن میت گھر پڑی رہی۔۔ جیسے تیسے دفنائی۔۔ تین دن سے پتہ نہیں اس کی ماں کیسے کھِلا رہی ہے؟‘ شابو نے اپ ڈیٹس دی،، حالانکہ میں نے تو پوچھا بھی نہیں تھا۔۔
’کیوں باپ مرگیا؟ اس کی آنکھیں تو نیلی ہیں۔۔‘ کم بخت وہی کیفیت، جو دماغ و زبان کا ربط ٹوٹنے پر ہوتی ہے۔۔ شابو کو میری بات سمجھ نہیں آئی،، اس نے منہ میں گٹکا گھماتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔۔ چار شوارموں کی تھیلی چار من کی لگنے لگی۔۔
گھر پہنچا تو سب ٹھیک ہوچکا تھا۔۔ بیگم کی گود میں چھوٹا کھیل رہاتھا۔۔ میں نے تھیلی بیگم کے حوالے کی اور خود اپنے کمرے میں آکر دوبارہ لیپ ٹاپ کھول لیا۔۔ بچوں کو کھانے پر لگا کربیگم کمرے میں آگئی۔۔ ہاتھ میں پلیٹ اور اس میں شوارما رول۔۔ میں دہل گیا۔۔ دل دھڑکا کہ کہیں شابو نے غلط تو نہیں بنا دیئے۔۔ تیرا ستیاناس ہو۔۔ میں نے دل میں شابو کو کوسا۔۔ لیکن طوفان کے بجائے ایک خوشگوار سی پھوار کمرے میں برسی۔۔
’اپنے لیے نہیں لائے؟ لے آتے اپنے لیے بھی۔چلیں آدھا کرلیں۔۔ میں تو ویسے بھی نہیں کھاتی اس وقت۔‘ بیگم نے شوارما اپنے ہاتھ سے آدھا کیا۔۔ اور ساتھ ساتھ بولتی رہی۔۔
’ آپ کی کاہلی تو خاندانی ہے،، لیکن آپ میں ایک بات اچھی ہے،، بچے سنبھال لیتے ہیں۔۔ بچے آپ سے بہل جاتے ہیں۔۔ بہت کم باپ ایسے ہوتے ہیں،، جو اولاد کیلیے ایسے تڑپ کر بھاگتے ہیں۔۔ ورنہ کچھ تو سارا دن گھرمیں مرے پڑے رہتے ہیں۔۔ ‘طوفان ٹل چکا تھا،، اور اس بار بیگم کی آواز میں کھنک اور شرارت گونج رہی تھی۔۔ کیچپ اور مایونے ہونٹوں کے اوپر ہلکی تہہ بنادی تھی۔۔ مجھے کہنا تھا کہ ہونٹ صاف کرلو۔۔ لیکن کم بخت وہی کیفیت پتہ نہیں کیوں پھر سے آڑے آگئی۔۔
’سب باپ ایک جیسے ہوتے ہیں یار،، کچھ نہ کرسکیں تو مر جاتے ہیں۔۔ ‘ میں نے پتہ نہیں کیا بولا تھا۔۔ شاید پھر سے بے ربط جملہ منہ سے نکلا تھا۔۔ بیگم نے گویا ان سنی کردی۔۔ منہ میں شوارمے کا نوالہ گھماتے ہوئے ،، وہی پرانی حرکت کی،، سوالوں کا برسٹ چلایا۔۔ ۔۔
’اونہہ،، ویسے ہواکیا ہے؟ آنکھیں کیوں لال ہیں؟ آپ کوکبھی کسی نے بتا یا ہے،، آپ کی آنکھوں میں پانی ہوتا ہے تو،، آپ کی آنکھوں میں رنگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں،، بالکل ارحم کی طرح۔۔ باپ پر گیا ہے،، ڈرامے باز ہے پورا۔۔‘
بیگم پتہ نہیں کیا کیا بول رہی تھی۔۔ غصے اور خوشی دونوں میں ایک جیسا حال ہےاس کا۔۔
لیکن،، ہاں آنکھوں سے یاد آیا،، میں آپ کو بتارہا تھا کہ ،، میرے بیٹے ارحم کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں،، قدرتی طور پر نیلی ،، بالکل کسی یورپین یا میڈٹرینین بچے کی طرح۔۔