• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

میرے استاد، میرے محسن

تحریر: حنیف خالد

آوازہ ڈیسک by آوازہ ڈیسک
March 31, 2020
in تبادلہ خیال
0
میرے استاد، میرے محسن
62
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
حنیف خالد

جاوید صاحب چلے گئے، جانا تو سب کو ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کے جانے کا یقین نہیں آتا، جاوید صاحب کے جانے کا خاص طور پر نہیں آتاکیونکہ میرے اور ان کے درمیان آجر اور اجیر،سینئر اور جونئر کے علاوہ ایک رشتہ اور بھی تھا،مجھے فخر ہے کہ رشتے کی یہ ایسی نوعیت ہے جس میں شاید ہی کوئی دوسرا میرا حریف ہو۔وہ رشتہ ہے جانشینی کا۔اب میں اس رشتے کی تفصیل بیان کروں تو بات دور نکل جائے گی لیکن دکھ کے موقع پر یہ یادیں ہی ہوتی ہیں جو انسان کا سہارا بنتی ہے۔
وہ سردیو ں کا موسم تھا اور سال کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ۹۶۹۱ء تھا جب بڑے میر صاحب نے ایک بڑا فیصلہ کیا جس کے تحت میر جاوید رحمٰن ”جنگ“ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے راولپنڈی پہنچے اور آئندہ کچھ ہی دنوں کے بعد اس ادارے میں ایک نوآموز داخل ہو ا جس کے تقرر نامے پر انھوں نے دستخط کیے، اس نوآموز کا نام تھا حنیف خالد۔ صحافت کی دنیا میں یہ میرا پہلا قدم اور پہلی ملازمت تھی جب کہ جاوید صاحب کے بھی یہ پہلے دستخط تھے جو انھوں نے کسی تقرر نامے پر کیے تھے۔۰۷۹۱ء کے سرد موسم میں آجر اور اجیر کے رشتے سے بننے والے اس تعلق میں کمال برکت پیدا ہوئی۔ تعلق تو وہ سینئر جونیئر یا آجر اور اجیر کا تھا لیکن ہمارے درمیان استاد اور شاگرد کا ایک روحانی رشتہ بھی پیدا ہوا جس نے مجھے صحافت کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن کمال یہ ہے کہ ان سے مجھے رہنمائی کا فیض زندگی کے ہر مرحلے پر ملا۔
اس ادارے میں شامل تو میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے ہوا تھا لیکن اس پیشے میں کوئی سب ایڈیٹر ہو یا رپورٹر ایک چیز سے بہت پالا پڑتا ہے، اس چیز کا معاملہ اب تو خیر بہت ہو گیا ہے لیکن اب سے چالیس پچاس برس پہلے بھی بعض ایسی خبریں آجاتیں جن میں رپورٹر کا کسی ایک طرف جھکاؤ صاف دکھائی دیتا۔ ایسا ہی ایک واقعہ تھا جب وہ تقریباً برہم ہو گئے۔ وہ بہت دھیمے لہجے میں بولنے والے انسان تھے لیکن اس روز وہ بلند آواز میں بولے اور اس طرح سنا کر کہا تا کہ ہر ایک سن لے۔ مجھے آج بھی ان کے الفاظ یاد ہیں، انھوں کہا تھا کہ ”جنگ“کسی کی کردار کشی کرنے کے لیے نہیں۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ کسی متنازع معاملے میں،خاص طور پر جب وہ دو فریقوں کے درمیان ہو،یک طرفہ مؤقف کبھی نہیں چھپے گا، دونوں فریقوں کی بات اور ان کے پورے مؤقف کو جگہ دی جائے گی۔اس میں کوئی شبہ نہیں یہ مرکزی پالیسی تھی جس کے اصل ذمہ دار بڑے میر صاحب یعنی میر خلیل الرحمن تھے لیکن راولپنڈی میں جس حکمت اور خوبی کے ساتھ انھوں نے یہ صحافتی سبق ہمیں ذہن نشین کرایا، یہ جاوید صاحب ہی کا حصہ ہے۔
ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور حساسیت کے بارے میں دو واقعات مجھے کبھی نہیں بھولتے، فیلڈ مارشل ایوب خان کا انتقال ہوا تو اس زمانے کی حکومت نے پابندی عاید کر دی کی یہ خبر سیاہ حاشئے میں نہ چھپنے پائے۔ جاوید صاحب نے اس کا ایک منفرد حل نکایا، انھوں ہیڈ کاتب سے باریک الفاظ میں اناللہ وانا الیہ راجعون لکھوایا اور اسے حاشئے کی شکل میں پورے صفحے پر پھیلا دیا، اس طرح حکم کی پابندی بھی ہوگئی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی ادا ہو گئی۔دوسرا واقعہ ۷۷۹۱ء کے مارشل لا کے نفاذ کے بعد کا ہے جب بھٹو صاحب مری میں نظر بند تھے، انھوں نے نظر بندی کے دوران ہی ایک بیان جاری کیا جسے کسی بھی اخبار نے شائع کرنے سے انکار کردیا۔میں نے فون پر اس بیان کے بارے میں جاوید صاحب کو بتایا تو انھوں نے سنتے ہی کہا کہ ہم اسے شائع کریں گے۔”مگر کیسے جاوید صاحب؟“ میں نے حیرت سے سوال کیا تو کہا:”لکھیں“۔ اس طرح کے خاص مواقع پر وہ ہمیشہ ایسے ہی کہا کرتے تھے۔ میں نے کاغذ قلم سنبھال لیا تو لکھوایا:”ذوالفقار علی بھٹو کا بیان“۔ پھر ہدایت کی کہ اس کی پہلی تین سطریں صفحہ آخر کے آٹھویں کالم میں شائع کریں اور اس کا پورے کا پورا متن بقئے میں لگا دیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے ہدایت کہ میں صبح پڑھوں گا، ایک لفظ بھی شائع ہونے سے نہ رہ جائے۔یہ ایک خطرناک کام تھا جس کا حکومت نے برا بھی بہت منایا لیکن جاوید صاحب کے ہمت دلانے پر ہم یہ کام کر گزرے۔
جا وید صاحب میر صاحب کی بڑی اولاد کی حیثیت سے اخبار کے مالک تھے اور لوگ اس وجہ سے ان کا احترام کرتے جو ان کا حق تھا لیکن وہ اس کی پروا کیے بغیر کارکنوں میں آکر بیٹھ جاتے۔مثلاً میری صحافتی زندگی کی ابتدا میں ۰۷ء کے انتخابی نتائج ایک بڑا اسائنمنٹ تھا۔ اس زمانے میں ریڈیو ہی خبر کی ترسیل کا سب سے تیز رفتار ذریعہ تھا اور میری ذمہ داری اسی پر تھی جو میں نے دو راتیں اور تین دن مسلسل جاگ کر ادا کی۔ اس مہم میں؛ میں اکیلا ہرگز نہ تھا، جاوید صاحب ہر لمحہ میرے ساتھ رہے، میری ہمت اور حوصلہ بڑھاتے رہے، مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب کھانے کا وقت ہوا اورکب چائے، یہ کام انھوں نے مجھے خبر کیے بغیر از خود بروقت کیا اورہر بار زبردستی کام سے اٹھا کر کہا کہ پہلے کھانا کھا لو۔کارکنوں کی ضرورتوں کاوہ اس طرح خیال رکھنے،حتیٰ کہ ہماری گھریلو پریشانیوں تک میں ان کی شفقت کا یہی انداز تھا جو انسان کو ان کا گرویدہ بنا دیتا تھا۔
و ہ کون پاکستانی ہوگا،۱۷۹۱ء کا دسمبر اور خاص طور پر اس کی سولہ تاریخ جس پر بجلی بن کر نہیں گرتی،یہ بھی شب کی بات ہے۔ قوم چونکہ حالت جنگ میں تھی، اس لیے اخبار شہ سرخی سے لے کر تصویر تک غیر معمولی جذبے کی کیفیت سے سرشار ہوتے تھے، اسی رات کی بات ہے، رات کے ڈیڑھ بجے جب ہم لوگ راولپنڈی ایڈیشن کی کاپی ابھی پریس بھیجنے ہی والے تھے کہ ایک ٹیلی فون کال نے مجھے چونکا دیا۔پوچھا گیا کہ کیا اخبار پریس چلا گیا؟ میں نے بتایا کہ ابھی جانے
ہی والا ہے۔ اس پر کہا گیا کہ ابھی کچھ دیر انتظار کیجئے، ایک بڑی خبر آنے والی ہے۔کچھ دیر کے بعد ٹیلی فون پر ایک خبر لکھوائی گئی، اس کے ساتھ شہ سرخی کے الفاظ بھی:
”بھارتی فوج ایک سمجھوتے کے تحت ڈھاکا میں داخل ہو گئی“
جس وقت یہ فون آیا جاوید صاحب میرے دائیں جانب کرسی پر بیٹھے تھے، پوچھنے پر میں نے انھیں تفصیل بتائی توشدید صدمے کے باعث وہ رو پڑے اور زور سے کہا، اللہ! اِن بد بختوں کو ہدایت دے۔جاوید صاحب کے یہ الفاظ صورِ اسرافیل کی طرح گونجے اور دفتر میں کہرام مچ گیا، سب سے بری کیفیت خود جاوید صاحب ہی کی تھی۔ آج جب جاوید صاحب کے کوچ کر جانے کی خبر کانوں سے ٹکرائی ہے تو میری آنکھوں کے سامنے پاکستان کی محبت میں اشک بار میر جاوید رحمن کا چہرہ ایک بار پھر آگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے، یہی آنسو میرے ہمدم، میرے دوست اور میرے مربی کی بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
ADVERTISEMENT
Previous Post

وبا کا ایک دن

Next Post

آنکھوں سے رنگ بہتے کیوں ہیں؟

آوازہ ڈیسک

آوازہ ڈیسک

Next Post
آنکھوں سے رنگ بہتے کیوں ہیں؟

آنکھوں سے رنگ بہتے کیوں ہیں؟

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

محشر خیال

سیکولر ایج
محشر خیال

سیکیولر ایج اور پاکستان

خیبر پختونخوا
محشر خیال

خیبر پختونخوا بجٹ میں کوئی میگا پروجیکٹ کیوں نہیں؟

عامر لیاقت حسین
فاروق عادل کے خاکے

عامر لیاقت ایسے کیوں تھے؟

لوڈ شیڈنگ
محشر خیال

لوڈ شیڈنگ سے فوری نجات کی ایک قابل عمل تجویز

تبادلہ خیال

معاشی بحران
تبادلہ خیال

معاشی بحران کا واحد حل ؛ ٹیکنولوجی بیس معاشرہ

نشہ
تبادلہ خیال

بلوچستان میں نشے کی تباہ کاری

کشمیر
تبادلہ خیال

کشمیر میں بھارت کے انسانیت کشی اور ڈرامہ کرفیو

پنشنرز
تبادلہ خیال

پنشنرز کی دہائیوں طویل خدمات کا صلہ کیا ملا؟

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2020 Aawaza - Design by Dtek Solutions.