موتے بھیڑیے نہیوں چنگے
جیون نال ایہہ واہدھے جیہڑے
کردی رہی ایں،کردی پئی ایں
کِناں کو چر تیری ششکر
ڈر دی واہر نوں کھجل کرنا یں
جیون الے اُنگل کر کے
موتے بھیڑیے کدوں کوتیکر
اَکھ نوٹیجی،انھی راہنایں،کجھ نہیں دِسنا
کِنا ں کو چرسِک ملن دی، سِکدیاں راہنا
لُک کے باہنا یں
کِنا ں کو چر،کدھاں جیون،ویہڑا موت
کِناں کو چر،رَتے بیر اُڈیکن رُوڑے
کِناں کو چررَسیاں تُوتاں دے ڈِھگ،مکھیاں کھانے
موتے بھیڑیے کِناں کو چر
حشر دے گھر اچ،حشر دی تھاہرے توں راہنا یں
گھر آلے گھر آ نہیں جاندے
جنا ں کو چر رب اوہلا اے،سب اوہلا اے
********
نوجوان ادیب مرزا محمد یٰسین بیگ نے اس نظم کا اردو میں آزاد ترجمہ کیا ہے جسے قارئیں کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
********
اے موت! اچھے نہیں ہیں
تیرے وہ جبر جو تو زندگی کے ساتھ کرتی آئی ہے اور کررہی ہے
آخر کب تک تمہاری مہیب صدا
گروہ انساں کو پریشاں رکھے گی
بطرف زیست انگشت نمائی تیری
آخر کب تک جاری رہے گی
اور بند آنکھ کب تک نہ دیکھ پائے گی, کب تک چھپنا ہے, امید وصل کب تک نراش رہے گی
کب تک دیواریں جیون اور صحن موت کی علامت بنا رہے گا
لال سرخ پکے بیر کب تک کھانے والوں کی رہ دیکھیں گے
اور رس بھرے شہتوتوں کے ڈھیر کب تک مکھیوں کا ہی کھاجا رہے گا
اے موت آخر کب تک حشر کے گھر میں حشر کی جگہ تو رہے گی
گھر والے آخر گھر آنہیں جاتے ؟
بس مالک کے نظر کرم کی دیر ہے.