آج 27 مارچ 2020 ہے شام کے 6 بجے ہیں۔۔عوام اپنے مسیحاون اور طبی عملے سے اظہار یک جہتی کرنے اور خراج تحسین پیش کرنے کیلیے امڈ آئے ہین۔گھروں۔۔عمارتون۔۔گاڑیون اور ہاتھون مین سفید جھنڈے لیے طبی عملے کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔۔اور سب مل کر گا رہے ہیں۔۔۔
❤ہمیں تم سے پیار ہے❤
طبی عملہ بھی پلے کارڈز لیے قوم کو یاد دلارہاہے کہ ہم آپ کیلیے اسپتال کے محاز پر ایک نادیدہ دشمن سے لڑ رہے ہین۔۔۔
ہم آپ کے لیے گھروں سے باہر ہیں۔۔۔۔۔
آپ ہمارے لیے گھروں مین رہیں
پرنٹ۔۔الیکٹرانک۔اور سوشل میڈیا سب ہی اس مہم میں حکومت۔۔طبی عملے اور اداروں کے ساتھ ہیں۔۔۔
ہماری قوم بس ایک دن مخصوص کرکے اسے ایک رسمی شکل دے کر منانے اور اس کے بعد لمبی تان کر سو نے کی عادی ہے۔۔۔اسی لیے ایسی مہمات بہت جلد دم توڑ دیتی ہین اور اپنی افادیت کھودیتی ہین جبکہ ضرورت ہے کہ مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھین جب تک کہ آخری اور حتمی کامیابی نہ ہوجائے۔۔۔
ہمین چاہئے کہ اس نعرے کی حقیقت کو سمجھین اور حقیقی معنون مین اس کو عملی شکل دین۔۔ صرف زبانی جمع خرچ ۔۔گانے بجانے اور سفید جھنڈے لہرانے سے کام نہیں چلے گا
جب تک ہم بقول قائد آعظم اتحاد۔۔تنظیم اور یقین محکم کا عملی مظاہرہ نہ کرین۔۔یہ وقت ہے کہ ہم ہرطرح کے اختلافات کو بھلاکر بحیثیت انسان اور پاکستانی بن کر دوسرون کے کام
آئیں۔۔نہ صرف خود۔۔اپنے خاندان بلکہ اپنے معاشرے کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔۔
اہم بات یہ ہے کہ اتحاد کے ساتھ ساتھ ہمین تنظیم۔۔نظم و ضبط اور مربوط کوششون کی ضرورت ہے۔۔۔افرا تفری۔۔ہڑبونگ اور پینک سے بچنا ہے۔۔لوگون کو امید دلانی ہے۔۔حوصلہ بڑھانا ہے۔۔اور تمام احتیاتی تدابیر پر خود بھی عمل کرنا ہے اور دوسرون سے بھی کرانا ہے۔۔اسی مین سب کی بقا ہے۔۔
قرآن حکم دیتا ہے کہ اللہ اور اسکے رسول ص اور حکمران وقت کی اطاعت کرین۔۔ایسے حالات مین جبکہ ہم ایک اسلامی ملک مین ہین۔۔اکثریت مسلمانون کی ہےاور حکومت اور ادارے بھی مسلمان ہین۔۔سب کی بقاء اس مین ہے کہ مکمل اطاعت اور احتیاط ہم پر لازم ہے۔۔یہاں تک کہ جو مسلمان غیر مسلم ملکون مین رہتے ہین۔۔مثلاً امریکہ اور یورپ وغیرہ ان پر بھی اطاعت لازم ہے کیونکہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے۔۔اور لوگون کی زندگیون کا سوال ہے۔۔جب کہ یہ احکامات قرآن وسنت اور شریعت کے مطابق ہین۔۔
خود رسول اللہ ص نے تیز بارش اور آندھی کے موقع پر حضرت بلال رض کو حکم دیا کہ آزان دو اور اس مین لوگون کو گھر پر نماز پڑھنے کا کہو۔۔۔حالانکہ بارش اور آندھی اتنی نقصان دہ نہی ہے کہ جتنی کہ یہ کرونہ کی وبائ صورت حال ہے۔۔جس مین نہ صرف جان کو خطرہ ہے بلکہ پوری نوع انسانی کو بھی خطرہ ہے۔۔
یہان رسول اللہ ص کا فرمان کافی ہوگا کہ اللہ کے نزدیک ایک مومن مسلمان کی جان اور عزت کعبہ سے بڑھ کر ہے۔۔۔
ویسے بھی یہ ایک منطقی بات ہے کہ جان ہے تو جہان ہے۔۔جان ہوگی تو ایمان بھی ہوگا۔اسلام بھی ہوگا اور دین پر عمل بھی ہوگا۔۔
اگر خدا نخواستہ آبادیاں قبرستان بن گئیں تو وہاں تو صرف خاموشی ہوگی۔۔نہ کوئ آذان۔۔نہ کوئی نماز۔۔نہ زندگی کی رونقیں۔۔۔۔دنیا کا سارا میلہ تو حضرت انسان کےدم سے ہے۔۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔۔کہ ہم نے انسان اور جنون کو اپنی عبادت کیلیے پیدا کیا ہے۔۔لہٰزا اگر انسان ہی نہ رہے تو اللہ کی عبادت کون کریگا۔۔ہوسکتاہے یہان کوئ کہے کہ اللہ تو بے نیاز ہے اسے عبادت کیلیے انسان کی ضرورت ہی نہی۔۔۔ٹھیک ہے کہ فرشتے۔۔جن اور دوسری تمام مخلوقات اللہ کی عبادت کر رہی ہین۔۔اور نہ بھی کرین تو اللہ کی خدائ مین زرہ برابر بھی فرق آنے والا نہی۔۔
لیکن یہاں ایک مثال سے واضح کروں گا کہ جب رسول اللہ ص 313 مجاہدین کولیکر میدان بدر مین پہنچے تو کیا دعا کی۔۔۔
اے میرے رب آج اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو اس روئے زمین پر تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔۔حالانکہ باقی ساری کائنات۔اور مخلوقات موجود تھین۔۔مگر یہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔باقی ساری کائنات انسان کیلیے مسخر کردی گئی ہے۔۔انسان خلیفتہ ا لارض ہے۔۔جو اہمیت حضرت انسان کی ہے کسی اور کی نہی۔۔ اور جو بات انسان کی عبادت مین ہے کسی اور مین نہی۔۔صرف جن و انس ہی با اختیار مخلوق ہین۔۔باقی سب بے اختیار۔۔لہٰزا جس کے پاس اختیار ہے وہی مسئول ہے اسی کی زندگی سب سے زیادہ اہم ہے۔۔۔
ا ب ہم لاک ڈاون کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔۔ کہ جس سے لاکھوں گھرانے متاثر ہین۔۔اور دو وقت کی روٹی کیلیے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہین۔۔
گو کہ حکومت اور اس کے ادارون کے ساتھ ساتھ بہت سے نجی ادارے مثلاً الخدمت۔۔ایدھی۔۔سیلانی چھیپا وغیرہ بھی پیش پیش ہیں۔۔لیکن معاملہ چونکہ بہت وسیع اور گھمبیر ہے۔۔اس لیے ہر شخص کو آگے آنا ہوگا اور اس کار خیر مین حصہ لینا ہوگا۔۔اور اپنے رشتہ دارون۔۔پڑوسیون۔۔اور اہل محلہ تک پہنچنا ہوگا تاکہ کوئ بھوکا نہ رہے۔۔بلکہ دیگر ضروریات زندگی بھی پہنچانا لازم ہے تاکہ وہ سارے لوگ بھی کم سے کم معیار ضرورت کے مطابق زندگی گزار سکین۔۔انھین کسی کے سامنے ھاتھ نہ پھیلانا پڑین اور ان کی عزت نفس بھی مجروج نہ ہو۔۔ایک ہاتھ سے دین تو دوسرے کو خبر نہ ہو۔۔
اس سلسلے مین سیلفیون اور سوشل میڈیا پر پبلسٹی سے گریز کرین۔۔ ویسے بھی یہ موقع ہے کہ ہم اپنے گناہون کا مداوا کرسکین۔۔صدقہ۔خیرات۔زکوة سب کچھ اس کام میں لگادیں۔۔
تاکہ تزکیہ نفس بھی ہو اور ہمارے مال و اعمال پاک ہوجائیں
جن لوگون نے عمرے یا حج کا ارادہ کیا ہے۔۔وہ اگر عمرے اور حج سے رہ جائیں تو کچھ نہ کچھ رقم مستحقین پر خرچ کریں۔۔ان شا اللہ گھر بیٹھے حج اور عمرے کا ثواب ملے گا
اور آئندہ سال ان شاء اللہ مزید آسانی ہوگی اور بہترین حج و عمرہ ہوگا۔۔۔
اس وقت افرادی قوت کی بہت ضرورت ہے۔۔وہ سارے نوجوان جو بیس سے تیس سال کے درمیان ہین اور اللہ کے فضل سے صحت مند ہین۔۔وہ اپنے آپ کو متعلقہ ادارون کے حوالے کردین بحیثیت رضاکار۔۔۔اور امدادی سرگرمیون مین بڑھ چڑھ کر حصہ لین۔۔اور اپنے فارغ اوقات کو کار آمد بنائین۔۔
ہمین یاد ہے کہ 56 اور 71 کی جنگ مین سول ڈیفنس کی ٹریننگ لی تھی اور بحیثیت وارڈن سول ڈیفنس مین خدمات انجام دین۔۔اس نوعیت کے کامون کے لیے ہمارے ہلال احمر۔۔گرلز گائیڈ۔۔اور اسکاوٹس وغیرہ بھی میدان عمل مین آسکتے ہین تاکہ جلد از جلد اس کار خیر کیلیے افرادی قوت میسر ہوسکے
ہمارے ڈاکٹرز۔۔نرسین۔۔پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر متعلقہ افراد پہلے ہی میدان عمل مین ہین۔۔۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے میڈیکل کے طلبہ و طالبات بھی اس مین اپنا حصہ ڈالیں
علماء اور خطباء حضرات بھی لوگون کی رہنمائ کرسکتے ہین اور اس کار خیر مین بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر آمادہ کرسکتے ہین۔۔
ہر طرح کا میڈیا بھی لوگون کو ان مقاصد کی طرف بلاسکتا ہے ۔۔عوام کے سامنے حالات کی مثبت اور امید افزا تصویر پیش کرین۔۔منفی پروپیگنڈے سے گریز کرین۔۔لوگون کو حوصلہ دین اور امید دلائیں
کیونکہ قومیں حوصلہ پہلے ہارتی ہیں اور جنگ بعد میں۔۔۔ویسے بھی اللہ سے اچھی امید رکھیں۔مایوس نہ ہوں۔۔شیطان مایوس کرتا ہے جبکہ اللہ رحمٰن و رحیم ہے اللہ امید دلاتا ہے کہ اے میرے بندون اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔۔اور اس سے اچھا گمان رکھو۔۔وہ تمہارے گمان کے مطابق عطا کرتا ہے۔۔۔
اس کالم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں ان تمام NGOs کو بھی دعوت دیتا ہون جو آج کل مشکل حالات مین غائب ہین۔۔موم بتی آنٹیوں کو بھی آگے آنا چاہئے۔۔یہی وقت ہے کہ میرا جسم میری مرضی کے بجائے میرا سب کچھ میرے رب کی مرضی کے طابع کردین تاکہ کفارہ ادا ہوجائے اور معافی مل جائے۔۔آمین۔
ایک آخری اور اہم بات اللہ پر یقین اور توکل کو مضبوط کرین۔اچھی امید رکھین۔۔مایوسی سے بچین۔توبہ استغفار کو لازم پکڑین۔۔نوافل اور ازکار کا اہتمام کرین۔اللہ کی طرف رجوع کرین۔۔ان شاء اللہ ہمارا رب بہت جلد ہم سے راضی ہو جائیگا۔۔کیونکہ وہ ستر ماون سے زیادہ ہم سے پیار کرتا ہے۔۔اور بہت جلد یہ بلا ٹل جائیگی۔۔آمین۔۔