کہا جاتا ہے کہ وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں لیکن جناب کورونا کا علاج صرف وہم سے ہی ممکن ہے۔دھوتے جائیں ہاتھوں کو بس جہاں اور جب موقع ملے۔ چہرے پر ماسک لگا کر رکھیں، مصافحہ کرکے یا گلے لگ کر کورونا کو گلے نہ لگائیں۔ لوگوں سے درمیانی فاصلہ رکھیں۔میل جول کا خیال تو دل و دماغ سے فوراًنکال دیں۔ دعویٰ تو یہی کیا جارہا ہے کہ یہ کرلیا تو سمجھیں کورونا‘ پاس بھی نہیں پھٹکے گا۔ اب اسی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے یار دوست ، زندگی سے ہاتھ دھونے کے بجائے ہاتھوں کو تواتر کے ساتھ دھوتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اور کیوں نہ دھوئیں جناب زندگی تو سب کو عزیز ہے۔ سوشل میڈیا ہو، ٹی وی ہو، کیا ایف ایم، کیا کھلاڑی، کیا فنکار اور کیا سیاست دان بس یہی تلقین کرتے ’شعور آگاہی مہم‘ کے ایسے ایسے پیغام دے رہے ہیں کہ انہیں دیکھنے اور پڑھنے کے بعد خود بخود دل چاہتا ہے کہ فٹا فٹ جائیں ہاتھوں کو دھونے کے بعد سینی ٹائزر کرکے اُس پاکستانی کھلاڑی کی طرح بیٹھ جائیں جو کئی میچز کے بعد سنچری بناتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ اب تو ٹیم میں جگہ پکی۔ وہ محبوب جس کی جگہ قدموں میں ہونی تھی لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ وہ بھی دور دور بھاگے پھر رہا ہے۔جھروکے ویران ہیں، باغوں کی رونقیں ماند پڑی ہیں۔ چھتوں پر بیٹھ کر چاند تارے توڑ کر لانے والے بے چارے اس فکر میں ہیں کہ جراثیم کش ادویات ملیں گی کہ بھی نہیں۔ خیال یہ بھی آتا ہے کہ نجانے کتنے عہد و پیما اور کتنے سہانے خواب اس سنگ دل اور بے رحم بلکہ یہ کہیں کہ ظالم سماج بنے کورونا نے بکھیر دیے ہوں گے۔ دل مسوس کر تو وہ بھی رہ جاتے ہوں گے جو نئی زندگی میں قدم رکھنے والے تھے، لیکن اب گھر سے باہر قدم نکالنے پر دس بار سوچتے ہیں ۔ اسی طرح جن کے ہاتھوں میں ساجن کے نام کی حنا سجنے والی تھی لیکن اب وہاں سینی ٹائزر کی خوشبو رچی بسی ہے ۔ کسی نے کیا خوب لکھا کہ کورونا کو شکست دینی ہے تو وہمی بن جائیں۔ بالکل جناب اور اس کا عملی نظارہ ہم اور آپ اپنی زندگی میں ان دنوں بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ وہم اور خوف کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دنوں ہمیں بیکری میں ڈبل روٹی کی خریداری کرتے ہوئے نجانے کہاں سے چھینک آگئی۔ آس پاس کھڑے لوگ ناگواری کے ساتھ دو دو فٹ دور جا کر کھڑے ہوگئے۔ سیلزمین نے غضب ناک آنکھوں سے ہمیں گھورا اور پھر تقریباً چٹکی سے اٹھا کر ڈبل روٹی ہماری طرف بڑھائی اور آنکھوں سے اشارہ کیش کاؤنٹر کی طرف کیا۔جہاں پہلے سے ہی کیشئر ہمیں ایسے گھور رہا تھا کہ جیسے ہم اس کے کئی ادھار ہڑپ کرگئے ہوں، سوشل میڈیا پر گردش کرتا جون صاحب کا یہ شعر اُس وقت ذہن میں گونجنے لگا
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
ہمارے ایک دوست تو اس قدروہمی ہوگئے ہیں کہ چہرے پر ماسک، ہاتھوں پرپلاسٹک دستانے اور ساتھ جراثیم کش اسپرے رکھتے ہیں۔ کسی سے بھی مخاطب ہونے یا کہیں بیٹھنے سے پہلے آس پاس اسپرے کرنا نہیں بھولتے، ان کا بس چلے تو کھانے پر بھی یہی کچھ کرکے اسے پیٹ سے اتاریں۔ ایک اور نے ہم سے یہ تک کہا کہ یار جب سے منحوس وائرس آیا ہے، بخدا یہ حال ہوگیا ہے کہ ذرا سی کھانسی یا چھینک آئے تو دل کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں کورونا تو نہیں ہوگیا۔ کوئی بھروسہ نہیں کہ مستقبل میں مائیں، بچوں کو کورونا سے ہی نہ ڈرائیں۔گاڑی یا موٹر سائیکل سوار ہوں یا دکاندار یا پھر راہ گیر سب ہر طرح کے الٹے سیدھے کالے پیلے ماسک لگا کر گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب گداگر تک حفظ ماتقدم کے اصولوں پر کارفرما ہیں۔ جو احباب، صبح اٹھ کر منہ تک نہیں دھوتے تھے اب بار بار ہاتھوں کے ساتھ منہ کو پانی کا احساس دلاتے ہیں۔ ڈر یہی ہے کہ ان دنوں کراچی والے جس مقدار میں پانی کا استعمال کررہے ہیں کہیں واٹر بورڈ کا خزانہ خالی نہ ہوجائے، اور پھر پانی بھی جراثیم کش ادویات کی طرح ’بلیک‘ میں ملنا شروع ہوجائے ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ اب جو جنگیں ہوں گی وہ پانی پر ہی ہوں ۔جراثیم کش ادویات ہیں تو وافر تعداد میں لیکن انہیں ’بھاری معاوضے‘ کے بعد حاصل کرنے والا ایسا سرخرو ہو کر نکلتا ہے جیسے اب تو کورونا ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوکر فرمائے گا کہ کیا حکم ہے میرے آقا۔انتظامیہ گھروں میں رہنے کا حکم دے رہی ہے لیکن مجال ہے کہ کوئی کان دھرتا ہو۔گھروں پر بیٹھنے کو کوئی آمادہ ہی نہیں۔ حیرت تو اُس وقت ہوئی جب دفتر سے واپسی پر پانچ بجے کے قریب ایک بازار میں رش دیکھا تو گمان یہ ہوا ہے کہ کہیں عوام کے کانوں میں کورونا نے یہ تو خوشخبری نہیں دی کہ بھائی میرے ’عمل کا وقت‘ صبح نو سے پانچ بجے ہے ، شام ڈھلتے ہی دکانیں دھڑا دھڑ کھلتی ہیں اور ایک جم ٖغفیر ہوتا ہے جو آج کی ضرورتوں کے بجائے کل کی فکر میں لگا رہتا ہے گویا:
سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
صد افسوس تو اُن صاحب حیثیت اوراہل ثروت افراد پر ہوتا ہے، جو ظاہری شان و شوکت دکھانے کے لیے ضرورت مند اور مستحق خاندانوں کا میلہ لگا کر اپنے اپنے عالی شان مکانوں کے باہر کورونا وائرس کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا ’درسی پروگرام‘ ہر جگہ چل رہا ہے۔ تلاش ہے اِس شہر کے اُن ’خوش خرم شیر‘ کھلاڑیوں کی جن کی ’لیاقت‘ کی ’عالم گیر‘ خوبی ان کی عوام دوست ہونے کی دعوے دار تھی۔ جو اس شہر کے دکھ سکھ اور مشکلوں کو مٹا کر اسے ’فردوس‘ بنانے کا ٹھانے ہوئے تھے ۔ کیا یہ زیادتی نہیں اُس فوٹوگرافر کے ساتھ جو ہوائی اڈے پر بغیر پروٹوکول قطار میں کھڑے ہو کر، اپنی باری کا انتظار کرتی اہم شخصیات کے اِن لمحات کو کیمرے میں قید کرتا رہا ہے اور آج و ہی فوٹوگرافر خالی خولی سینی ٹائزر لگے ہاتھ کو ہاتھ پر رکھے بیٹھا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ بات کہاں سے کہاں جارہی ہے۔ لیکن کیا کریں یہ بھی ہمارا وہم ہی ہے کہ باہر نکلیں تو شائد کوئی بھولا بھٹکا کوئی ’عوامی نمائندہ‘ کہیں کسی چوراہے پر غریب بنی نوع انسان کی خدمت میں پیش پیش مل جائے۔مگرہائے رے وہ تو اپنے کاروبار زندگی کے گلشن کی بھول بھلیوں میں کھوئے ہوئے ہیں جبھی خیال بس یہی آتا ہے:
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے