
وقت کے دانشوروں کا پورا گروہ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ مذہب کرونا وائرس کا مقابلہ نہیں کرسکا اس لیے ہمیں مذہب کی شکست تسلیم کرتے ہوئے سائنس کی طرف رجوع کرنا چاہیے. ویسے تو ان دانشوروں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ حضور مذہب نے یہ دعوا کب کیا کہ وہ انسان کا علاج معالجہ کرنے کے لیے دنیا میں آیا ہے. مذہب کا تو دائرہ کار ہی الگ ہے. ان دانش وروں کو علم تو ہوگا اگر نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں.
انسان دوسرے جان داروں سے ممتاز ہے. وہ دوسرے جانوروں کی طرح بلاشبہ ایک نامیاتی وجود کا حامل ہےجو پیدا ہوتا ہے، وقت اس پر اثر انداز ہوتا ہے،وہ جوان ہوتا ہے، جوانی سے بڑھاپے کی طرف سفر کرکے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے. اس وجود کو بھوک لگتی ہے، جنسی طلب ہوتی ہے اور پھر اسے جسمانی آرام کی ضرورت پیش آتی ہے. دیگر جان وروں کی زندگی یہیں تک ہے مگر انسان اس کے ساتھ ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے. یہ وجود اس کا مابعدالطبیات سے رشتہ جوڑتا ہے. پھر انسان ایک عقلی وجود بھی ہے کہ یہ واحد جانور ہے کہ جو اپنی عقل کے آزادانہ استعمال پر قادر ہے. اس عامل کی مدد سے وہ تجزیہ و تالیف کرتا ہے. کل اور جزو کے ساتھ ساتھ علت و معلول کے رشتے تلاش کرتا ہے . اس کے بعد انسان ایک اخلاقی وجود کا مالک بھی ہے. یہ دوسرے جان داروں کے برعکس خود پر بہت سی پابندیاں عائد کرتا ہے. انسان چوں کہ مل جل کے رہنا چاہتا ہے اس لیے وہ کچھ ایسے اصول و ضوابط طے کر لیتا ہے جو اس اجتماعی زندگی میں فرد اور خود اجتماعی زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہوں . یہی نہیں انسان ایک جذباتی وجود بھی رکھتا ہے. انسان اپنی پسند ناپسند اور محبت و نفرت کے معاملے میں بہت شدید واقع ہوا ہے.
مذہب ان سب وجودوں کے درمیان توازن قائم کرتا ہے. وہ مابعدالطبیات سے انسان کا رشتہ قائم کرکے اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے. عقل اور جذبات میں ہم آہنگی پیدا کرکے نامیاتی وجود کو جینا سکھاتا ہے( دنیا کے تمام فلسفے بھی یہی کام کرتے ہیں) .
دوسری طرف سائنس کا موضوع صرف انسان کا نامیاتی وجود ہے. سائنس نے اس وجود کو سنوارنے اور ترقی دینے کی ذمہ داری خود سے سنبھال رکھی ہے. اسے انسان کے مابعدالطبیاتی، اخلاقی، عقلی اور جذباتی وجود سے کوئی دلچسپی نہیں. وہ حواس پر بھروسا کرتی ہے اور جو چیز انسانی حواس کی گرفت سے باہر ہو اس کا بہت سہولت سے انکار کردیتی ہے. اس نے اپنے تجرباتی مزاج کی وجہ سے انسان کے نامیاتی وجود میں دلچسپی لی اور اسے ہرممکن آرام و آسائش پہنچانے کی کوشش کی . انسان نے بھی اپنی توقعات سائنس سے وابستہ کرکے اپنی صلاحیتیں اس کے حوالے کردیں. اب سیدھی سی بات ہے کہ اگر انسان کے نامیاتی وجود کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو گا تو یہ ناکامی سائنس کی ہوگی نہ کہ مذہب کی کیوں کہ نامیاتی وجود کی ذمہ داری سائنس نے خود بڑھ کر قبول کی ہے . یہ سوال تو سائنس سے کیا جائے گا کہ تو تو روز انسان کو ترقی کے مژدے سناتی ہے اور حال یہ ہے کہ تجھ میں ایک ننھے سے جرثومے کا مقابلہ کرنے کی سکت بھی نہیں . انسان پوچھ سکتا ہے کہ جب وہ اپنی محنت کی کمائی کا بڑا حصہ سائنس پہ خرچ کر رہا ہے تو اس کا حاصل کیا ہے؟ __ ایک ننھے سے جرثومے کے سامنے بے بسی…. چاند پر جانے یا مریخ کو فتح کرنے سے انسانیت کو کیا فائدہ؟ مسئلہ تو ایک چھوٹا سا وائرس بنا ہوا ہے. بات چلی تو پھر سائنس سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ انسان نے تو اپنی بقا کے لیے تجھ سے توقعات وابستہ کی تھیں تجھے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنانے کا اختیار کس نے دیا. تو نے تو ترقی کے نام پر وہ کچھ بنا ڈالا کہ ایک بٹن دبانے سے پوری دنیا آگ کے گولے میں تبدیل ہو جائے. تو نے تو اس سیارے اور اس پر بسنے والوں کی تباہی کا پورا انتظام کر ڈالا . البتہ داد دینا ہوگی سائنس کے علما کو اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری کس خوبی سے مذہب پر ڈال دی ہے اور مثال کے طور پر چند مذہبی شعبدہ باز بھی پیش کردیے.