
کراچی والو تمہیں سلام
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہی، نصف صدی قبل ایک مفلوک الحال پہاڑی، دیہاتی لڑکا کراچی کی روشنیاں دیکھنے اور اس شہر بےمثال میں تعلیم حاصل کرنے آیا، یہ وقت وہ تھا کہ جب یہ شہر جگمگایا کرتا تھا اس روشنی سے کہ جو تہذیب کی روشنی کہلاتی تھی، کیسے کیسے قدآور اس شہر کی پہچان ہوا کرتے تھے، یہ لڑکا آیا اس کشمیر سے تھا کہ جہاں زندگی تنگ کردی گئی تھی جہاں بندوق کی گولیاں تھیں، توپوں کے گولے تھے لاشیں اور شہادتیں تھیں جہاں نہ تعلیم ممکن تھی نہ تربیت، جہاں مائیں اپنے بچوں کو صرف رو لیا کرتی تھیں۔
یہ لڑکا کراچی کے ایک گورنمنٹ کالج میں داخل ہوگیا اور ساتھ ساتھ بلدیہ کراچی میں ملازمت کرلی لیکن کراچی والوں نے اس لڑکے کا ہاتھ پکڑلیا اور ایسا پکڑا کہ اب 60 سال کی عمر میں یہ ادھیڑ عمر جب پاکستان کی سب سے بڑی بلدیاتی کارپوریشن کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ڈائریکٹر میڈیا مینجمنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسوء جھلملاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ کام کرنے والے مرد و خواتین اس سے زیادہ آنسو بہاتے ہیں، اس شہر نے ہر غریب کو پناہ دی اس نے سب کو عزت شہرت دولت سے نوازا لیکن بہت کم نے اس کو بشیر سدوزئئ جیسا لوٹایا بشیر سدوزئئ نے بھی اس شہر کو اپنایا اس کو وہ کچھ لوٹنے کی کوشش کی جو اس شہر کی ضرورت تھی۔
اس شہر بےمثال و لازوال نے جتنی محبت، عزت، شہرت اس کشمیری محمد بشیر خان سدوزئی کو دی یہ اس کا حقدار تھا۔ محمد بشیر خان سدوزئی ہمارے دوست ہیں اور ایسے دوست ہیں جو ہمارے کان پکڑوادیتے ہیں، بشیر بھائی خود کہتے ہیں کہ یہ عزت کامیابی سب میرا نصیب ہے کہ ایسے اچھے لوگ مجھے ملے کہ جنہوں نے ایک کوئلہ کو ہیرا بنادیا خاص طور پر جناب سیف الرحمن گرامی صاحب کا ذکر جس خلوص و محبت سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرامی بھائی نے اپنے بچوں کی طرح محبت دی، جنہوں نے تعلیم سے تہذیب سے تربیت سے نوازا ۔
کئی کتابوں کے مصنف بشیر خان سدوزئی جناب عبدالستار افغانی، جناب فاروق ستار، جناب نعمت اللہ خان صاحب، جناب مصطفی کمال صاحب اور جناب وسیم اختر کے بحیثیت میر اور بحیثیت ناظم کراچی کے ان تمام ادوار میں بلدیہ کراچی میں ذمہ داریاں سرانجام دیں۔وہ ان تمام کا ذکر بڑے اچھے انداز میں کرتے ہیں، ہماری تو جب بھی بشیر بھائی سے ملاقات ہوتی ہے وہ سراپا عجز و محبت کرنے والے ہی لگتے ہیں ۔ہمیشہ یہ کہتے ہوئے کہ میں اپنے رب کا شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے ایسے اچھے لوگوں سے ملوایااور اس کراچی شہر کو میرا شہر بنایا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ان سب کے لئے صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ
کراچی تجھے سلام
کراچی والو تمہیں سلام