
کرونا کی تباہیوں کو جب مجموعی طور پرکھا جائے تو ، انسانی جان کے نقصان کے ساتھ، معاشی میدان میں تباہی ہو گی. اور ایسی تباہی جس کا ازالہ دنیا، شاید چند ہفتوں یا مہینوں میں نہیں، بلکہ سالوں تک نہ کر سکے.
بے روزگاری اور بھوک کا عذاب، کرونا کی سب سے بڑی پیداوار ہو گی.
چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، کرونا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے. اور کئی ممالک میں اس پیمانے کے کاروبار کے لیے کوئی امکان باقی نہیں رہے گا. کیونکہ لوگ جراثیم سے پاک پیداوار اور اشیائے روزمرہ، طلب کریں گے اور اس کی گارنٹی صرف وہی کمپنیاں دے سکیں گی جن کا حجم کئی ممالک تک پھیلا ہوگا. یقیناً، اس کا سارا فائدہ. ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہوگا.
چھوٹی صنعتوں کے سکڑنے یا ناپید ہونے کے سبب، دنیا کے ہر ادارے میں ملازمین کی تعداد بھی کم ہوگی. بے روزگاری کی یہ وجہ زیادہ خوفناک ہو گی. اور اس کہ وجہ سے، پڑھی لکھی useless class کے معاشی مسائل دنیا کے ہر ملک کے لیے ایک خوفناک اور بڑا چیلنج ہوں گے.
کرونا کے بعد، معاشی میدان میں جو سب سے بڑھ کر تبدیلی ہو گی وہ کرنسی نوٹ کے حوالے سے ہوگی.
کاغذ کی کرنسی، جس کی ضمانت ریاستی بینک ہیں، کی بجائے ایک یونیورسل کرنسی کی طرف بھی پیش قدمی ہو گی.
اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی دنیا اور انسانی رویوں کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں کے لیے، کسی بھی فرد یا ادارے کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل، اور کے کرنسی نوٹ کے سیریل نمبر کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں. جب کہ ڈیجیٹل کرنسی اکاؤنٹس اور ان کے تمام تر پاس ورڈز کو کنٹرول کرنا نہایت آسان اور ممکن کام ہے. اس لیے کرونا کے بعد کیش لیس، اور ڈیجیٹل اکانومی اور ان کے پاس ورڈز ہی افراد ، اداروں اور ممالک کی کل معاشی کمائی ہوں گے. اور یونیورسل، کرنسی اور ان کے ڈیجیٹل اکاؤنٹس، سیریل نمبر پر مبنی کرنسی نوٹ اور اس کی روایتی بینکنگ کے لیے بھی بہت خطرناک چیلنجز ہوں گے. اور جو ریاست اقر حکومتیں ان چیلنجز کو بروقت سمجھتے ہوئے بِلا تاخیر پیش قدمی کریں گی اور حکمت عملی کے ساتھ بڑے فیصلے کرنے کی جرات رکھیں گی، انہی کے ادارے اور معاشرے اس معاشی جنگ سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں گے.
یوں کرونا کے بعد، بہت تیزی سے معاشی دنیا، کاغد کرنسی کے بجائے کیش لیس یونیورسل کرنسی کی طرف سفر کرے گی، جس کے پاس ورڈز کا مکمل ریکارڈ اور کنٹرول عالمی سطح پر انٹرنیٹ سروسز فراہم کرنے والی کمپنیز کے پاس ہوگا.