
حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے گھر سے کوئی باہر نہ نکلے اور پاکستانی عوام صرف یہ دیکھنے کے لئے گھر سے باہر نکلتے ہیں کہ کوئی باہر تو نہیں نکلا۔ اور تو اور گھر سے باہر نکلنے پر اگر گولی مارنے کا اعلان بھی ہو جائے تب بھی پاکستانی باہر یہ دیکھنے کے لئے جائیں گے کہ کوئی گولی مار بھی رہا ہے یا صرف تراہ نکال رے۔ میرے دو ذاتی خیال ہیں۔ پہلا صرف مار ہی سکھاتی ہے پاکستانیوں کو زندہ رہنے کا سلیقہ، تعلیم اور آگاہی سے ان کے اندر کی جہالیت نہیں جاتی۔ نمبر دو میری باتوں کے اندر کی بات سمجھنے کے لئے آپ کے پاس کوئی حس ہو یا نہ ہو مزاح کی حس ہونا ضروری ہے۔
آپ شادی شدہ ہیں یا کنوارے پولیس کے آگے مرغا بننے سے بہتر ہے کہ گھروں میں رہیں چاہے گھر میں آپ کو کوئی منہ لگائے یا نہ لگائے۔ شادی شدہ تو ویسے بھی منہ لگنے سے پرہیز کریں یہ نہ ہو بیگم کا منہ پھلا کے کہ اے منا کے آبا آپ نے تو ابھی تک لاک ڈاؤن کا سوٹ بھی نہیں لے کر دیا یا یوں بھی فرمائش ہو سکتی ہے کہ مجھے میچنگ ما سک چاہیئں تو چاہیں، بس۔
حکومت کی پابندیوں کی وجہ سے اور وائرس کی وجہ سے جن کی شادی منسوخ ہوئی ہے وہ حضرات ایک بار پھر سوچ لیں اللہ اتنا شاندار موقع بار بار نہیں دیتا۔ اب آپ لوگ گھر میں رہ کر سوشل میڈیا پر دانشور بن سکتے، ڈاکٹر بن سکتے، مفتی بن سکتے، صحافی بن سکتے حتی کہ ہیرو بھی بن سکتے ہیں لیکن شادی کے بعد پھر کبھی نودوگیارہ بھی نہیں ہوسکتے اور بہادر ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے۔
جہان تک شادی شدہ حضرات کی بات ہے تو اگر وہ وائرس سے پناہ چاہتے ہیں تو گھروں پر تشریف رکھیں اور اگر جان کی امان چاہتے ہیں تو اپنی اپنی بیگمات سے بنا کر رکھیں۔ چاہے بیگم سے بنے یا نہ بنے، دل کرے یا نہ کرے بالخصوص اپنی بیگمات سے فضول بحث کرنے سے گریز کریں کیونکہ یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے کہ گھر میں ہیں تو محفوظ ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ آپ ڈینجر زون میں ہیں۔ محض سنا ہے ولادی میر پیوٹن نے سڑکوں پر شیر چھوڑ دیے ہیں پر یہاں تو ہر گھر میں شیرنی موجود ہے جسے ماسی کے حصے کا کام، برتن دھونے والی کے حصے کا کام اور کپڑے دھونے والی کے حصے کا کام بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا فضول شوخیوں سے فوراً توبہ کریں کیونکہ خطرہ صرف باہر ہی نہیں اندر بھی ہے۔ لیکن اتنا ڈرنے کی ضرورت بھی نہیں مرد حضرات بلا خوف و خطر گھر میں گھوم سکتے ہیں جس اللہ نے اس بلا سے ہماری شادی کرائی ہے وہی ہماری اس سے حفاظت بھی کرے گا۔
ہر طرف وائرس کرونا کو بھگانے اور مارنے کے وظائف چل رہے ہیں ہم آپ کو گھر میں خوش سکون اور چین سے جینے کے وظائف سے اگاہ کرتے ہیں بیوی سے کوئی بھی کام کرا نا ہو تو پہلے کہیں تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ چائے کی پیالی جب بھی منگوانی ہو تب ساتھ کہیں تم کام بھی کتنا زیادہ کرتی ہو۔ ہر دو دن بعد کہیں آب تو تم پہلے سے بھی زیادہ پتلی ہو گئی ہو۔ روز شام کو سوتے وقت کہیں کام کرکے تھک جاتی ہوگی نا۔ صبح اٹھتے ہی کہیں اپنا خیال رکھا کرو۔ جب کبھی بیوی کو گھورتے ہوئے پائیں تو فورا کہیں لاک ڈاؤن ختم ہوجائے تو کام والی ایک اور رکھ لیں گے۔ ان وظائف کو کرتے رہنے سے گھر میں چین سکون اور آپ کی جان بچی رہے گی اور آپ باہر اور اندر والی بلاء سے بھی محفوظ رہ پائیں گے انشاءاللہ۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔