
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح بھی صورتحال کچھ نازک ہے ابھی تک44 افراد انتقال کرگئے ہیں اور ہر روز تعداد بڑھتی جارہی ہے. اسکولز، یونیورسٹیاں بند ہیں، اسی طرح شاپنگ مال، کیفے، ریسٹورنٹ وغیرہ سب بند ہیں، پینسٹھ سے زاید عمر کے لوگوں کی گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت ہے. البتہ ہم پر کوئی پابندی اب تک نہیں لگی ہے. مگر خدانخواستہ اگر حالات اور خراب ہوئے یہ پابندی لگ بھی سکتی ہے. یہاں کی مساجد تو بند نہیں مگر جمعہ کی نماز اور نماز با جماعت کی ممانعت ہے. یہاں ہماری مذہبی ادارہ دیانت نے پہلے بیمار کی اطلاع ملتے ہی احادیث اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال پیش کرکے فتوی جاری کیا تھا کہ اب نماز با جماعت جائز نہیں.
البتہ ترکی میں یورپ کی طرح ایک افراتفری اور خوف کی فضا ابھی تک نہیں نہ ہی لوگوں نے اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے مارکیٹوں پر حملہ کرکے ان کو خالی کیا ہے. اور ہسپتالوں میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
ہماری حکومت نے جتنے بھی ترک ملک سے باہر تھے اور ترکی واپس آنا چاہتے تھے ان سب کو ترکی پہنچایا ہے اور پہنچا بھی رہی ہے. کل یورپ کے مختلف شہروں میں زیر تعلیم ڈیڑھ ہزار سے زاید ترک طلبہ و طالبات کو ترکی پہنچایا گیا البتہ ان کے لیے ہاسٹلز مختص کئے گئے ہیں اور وہ چودہ دن ان ہاسٹلز میں رہیں گے تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اس کی پیش بندی کی جسکے. اسی طرح عمرہ سے واپس آنے والے بھی ہاسٹلز میں مقیم ہیں. ان کو اپنے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں
آج حکومتی اجلاس کے بعد یہ کہا گیا کہ ترکی حکومت اس کے لیے کافی عرصے سے تیاری کررہی تھی. ان کا کہنا تھا کہ چند سالوں سے یہ انتظار تھا کہ ترکی پر بائیولاجکل حملے کا ڈر تھا اس لیے تیاریاں اور احتیاطی تدابیر جاری تھیں