انیسویں صدی کے نصف آخر سے لیکر آج تک سرسید احمد خان اور ان کا ادارہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کے لئے ایک منارہ نور رہا ہے، آج جب ساری دنیا کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے پریشان ہےاس عالم میں بھی پاکستان میں وہی ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف، نرسز ،اور لیبارٹریز کام آرہی ہیں جو سرسید مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔
علیگڑھ یونیورسٹی, اور علیگڑھ تحریک کے بانی، برصغیر کے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے والے سر سید احمد خان آج کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن آپ کی بنائی ہوئی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کے وہ نوجوان جو وہاں جدید تعلیم سے فیض یاب ہوئے تحریک پاکستان لے کر آج تک برصغیر کے مسلمانوں کی راہنمائی کررہے ہیں
جنگ آزادی 1857ء سے قبل اور مغلوں کے دور آخر میں ہی مسلمانوں کی زبوں حالی کا آغاز ہوچکا تھا۔ سر سید احمد خان نے اس زبوں حالی کا علاج جدید تعلیم میں ڈھونڈا اور 24 مئی 1875ء کو علی گڑھ کے مقام پر محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول قائم کیا جسے 1878″

میں کالج اور 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔
علیگڑھ یونیورسٹی نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی ،مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کی، اس تعلیمی ادارے نے مسلمانان برصغیر کی نئی نسل کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا
سر سید احمد خان کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی چھوٹا سا پاکستان تھی اور پاکستان بڑی سی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ بقول جون ایلیا کے کہ پاکستان علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے لونڈوں کی شرارت سے بنا۔
27 مارچ 1898ء کو آج ہی کے دن سرسید احمد خان دہلی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، علی گڑھ یونیورسٹی میں ہی آپ کو دفن کیا گیا۔ جدید تعلیم کی طرف مسلمانوں کو راغب کرنا اور یونیورسٹی کا قیام آپ کا برصغیر کے مسلمانوں پر وہ عظیم احسان ہے جسے ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔