
کرونا نے ایک طرف تباہی پھیلائی ہے تو یہ موقعہ بھی فراہم کیا ہے کہ لوگ اہلخانہ کو وقت دے سکیں، گھڑی کی ٹک ٹک کیساتھ دوڑتی، بھاگتی مصروفیات سے وقت نکال پر اپنے اندر جھانک سکیں۔ خود آپ سے ملیں، بیوی بچوں کو وقت دیں، مصروف زندگی میں بھلا یہ موقعہ کہاں ملتا ہے۔ علامہ گوگل شام ڈھلے غریب خانے پہنچے تو میں حیرانی کا اظہار کیا، بولے یار جو گزرتی ہے قلب شاعر پر شاعر انقلاب کیا جانیں۔ عرض کیا اتنے بیزار کیوں ہیں، بولے بھائی میں تو جانتا ہوں کہ وبا کے دنوں میں محبت بھی مر جاتی ہے، آپکی بھابھی زینتھی پی سے کچھ کم نہیں، یہ احساس تیس سال بعد اب ہوا جب بغیر وقفے تین دن مسلسل گھر رہنا پڑا، سمجھ آ گئی سقراط، سقراط کیوں بنا۔
علامہ گوگل چلبلی شخصیت ہیں پل میں یہاں پل میں وہاں، گھر بیٹھنا یقینی طور پر انکا عظیم کارنامہ ہے، میں نے پوچھا حضرت باہر نکلتے وقت کورونا کا خوف نہیں لگا آپکو، بولے گھر میں زیادہ تھا، بھئی ابھی کل کی بات پے پڑوس میں میاں بیوی کا آٹھویں بار جھگڑا ہو، شوہر جھجھلا کر بولے اس سے تو بہتر ہے کہ اٹلی چلا جائوں، اس کے بعد جو یکطرفہ گولہ باری ہوئی ہے کورونا کو قوت سماعت ہوتی تو یقین جانیں خود کو لاک ڈائون کر لیتا، میں نے مزے لیتے ہوئے پوچھا حضور کونسا لاک ڈائون، وفاقی یا صوبائی، تو میری جانب گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے بھیا بات یہ ہے کہ کیا عمران خان غلط کہہ رہے ہیں، کیا ہم کرفیو افورڈ کر سکتے ہیں، کیا کروڑوں غریب کرفیو کو بھگتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہیں جناب، آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں میں سمجھ رہا ہوں مگر یہ بھی ایک حقیقت تو ہے۔ میں نے کہا علامہ لوگ تو پکنک منا رہے ہیں، اجتماعات ہو رہے ہیں یہی حال اٹلی میں تھا، گہری سانس لیکر بولے دیکھیئے خدا خیر کرے مگر پاک پروردگار نے آپ کو ایک نعمت سے نوازا ہے وہ ہے آپ کا مدافعتی نظام جسے امیون سسٹم کہتے ہیں آپ لوگ، یورپ اور امریکہ سے بہت زیادہ تگڑے ہیں، گورے بیچارے صاف ستھرے، شفاف ماحول کے عادی، ہم ٹہرے آلودگی، غلاظت اور بیماری سے لڑنے والے، تو آپ کا جسمانی نظام گورے سے زیادہ لڑنے بھڑنے کا عادی ہوا کہ نہیں، میں نے کہا واہ علامہ آپ نے کیا مثبت نکتہ نکالا ہے، کہنے لگے بھائی میں نے کچھ نہیں نکالا یہ تو اللہ کی نعمت ہے۔
گرم کافی کا سپ لیتے ہوئے بولے یار یقین جانیں تین دن سے رات دن گھر میں رہا، مجھے پتہ ہے کہ پنکھے میں کتنے اسکرو ہوتے ہیں، منٹ میں گھڑی کا پنڈولم اور نبض کتنی بار دھڑکتی ہے، موٹر چلانے کے بعد شاور میں پانی کتنی دیر میں آتا ہے، پڑوسن کیا پکا رہی ہیں، اور دل کیوں بار بار انالحق کا نعرہ لگا رہا ہے، اللہ اللہ چھٹی حس کو پچھاڑ کر پانچوں حسیں رقص درویش میں لرزاں ہیں، یہ خود شناسی بھلا پہلے کہاں تھی۔ میں نے کہا درست لیکن قیاس و امکان بھی نہ تھا کہ دنیا اسقدر بھیانک تجربے سے گزرے گی، جدید ٹیکنالوجی، سائنس سب ایک نظر نہ آنے والی مخلوق کے سامنے ڈھیر ہو جائیگا، ایک سگریٹ خود لیا دوسرا مجھے دیا سلگایا اور فلسفیانہ پوز بنا کر بولے، اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائوں گے، حضور یہ بھی تو دیکھیئے کہ دنیا کو ڈھیر سارا سیکھنے کو بھی مل رہا ہے، جبری سماجی دوری کا المیہ شاید بنی نوع انسان کو سمجھا سکے کہ انسان دشمنی اور جنگ کتنی نفرت انگیز شے ہے، یقین جانیں تین دن بعد گھر سے نکلا ہو تو لگا جیل سے چھوٹا ہوں، ہم انسانوں کو دیکھنے کے کس قدر عادی ہیں، صاف، غلیظ، امیر، غریب، آدمی، چھوٹے بڑے اچھے برے آدمی، ہر طرف بکھرے روتے ہنستے آدمی، یہ انسان کی کمزوری ہے یا طاقت لیکن فطرت ضرور ہے۔ اکیلا رہنا پڑے تو ایک عجب خلش، بیچینی آپ کو اندر سے کھوکھلا کرتی جاتی ہے، پھرانسان اپنے اندر قید تنہائی میں گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ شاید اس تجربے کے بعد یہ دنیا انسان دوست بن جائے، شاید مذھب، ملت، رنگ و نسل کی نفرت مٹ جائے، شاید انسانیت پہلا رشتہ بن جائے۔ میرے بھائی یہ بھی دیکھیئے عالمی نظام زندگی معطل ہونے سے ماحول کتنا بہتر ہوا ہو گا، آلودگی کتنی کم ہوئی ہے، فاصلوں کیساتھ کام کرنا کتنا اچھا تجربہ ہے، کاروبار، ملازمت حتیٰ کہ پڑھائی بھی انٹرنیٹ پر ہو رہی ہے، کیا پتہ دنیا کا لائف اسٹائل ہی تبدیل ہو جائے۔ میں کہا بات تو ٹھیک ہے آپ کی، شاید اللہ کا عذاب نازل ہو رہا ہے، انگلی اٹھا کر زور سے بولے ناں، ناں ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنیوالا معبود بندے پر عذاب نازل نہیں کرتا، بندہ خود عذاب کو دعوت دیتا ہے خالق تو مصیبت سے نکالتا ہے مخلوق کو اور جلد نکالے گا، پوری دنیا مصیبت میں ہے تو سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اسے مشرق کا بندہ بھی پیارا ہے اور مغرب کا، کالا بھی، گورا بھی، مسجد بھی اسکی ہے اور معبد بھی، یہودی ربی بھی اسی کے سامنے سر جھکاتا ہے، راہب اور مولوی بھی، وہ مندر کی دعا بھی قبول کرتا ہے اور منکر کو بھی نوازتا ہے، بس سمجھ کا پھیر ہے شاید اب دنیا سمجھ جائے، اور تم خدا کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے۔
ایسے میں علامہ کے موبائل کی گھنٹی بجی، سر پر ہاتھ مار کر بولے بس آ گیا بیگم کا فون، دو چار مرتبہ جی، جی، درست فون بند کیا، دیکھیئے عزت اور ذلت تو بیشک اللہ کے ہاتھ ہے مگر بیوی کے سامنے انکار کے بعد ذمہ دار اللہ کو ٹہرانا کہاں کا انصاف ہے۔ رخصت کرنے باہر آیا تو ان سے کہا علامہ حقیقت یہ ہے کہ کرونا کے دکھ میں مبتلا تھا مگر آپ کی باتیں سن کر ایک نئی امید بندھی ہے، ہاتھ ہلاتے ہوئے اقبال کا شعر پڑھا
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون