
سر سید احمد خان ہند کی ان عظیم شخصیات میں سے ایک تھے جو ایک فرد ہی نہیں ایک تحریک بھی تھے۔وہ 17 اکتوبر 1817ءکو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔
جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد سر سید احمد خان قوم کی تباہی اور زبوں حالی سے سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے پہلے اس جنگ کے اسباب و عوامل پر ایک رسالہ ”اسبابِ بغاوتِ ہند“ تحریر کیا پھر انہوں نے مسلمانوں کو انگریزی زبان اور مغربی علوم کے حصول کے لیے مائل کرنا چاہا تاکہ وہ آہستہ آہستہ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوسکیں۔
اس مقصد کے لیے پہلے انہوں نے 1861ءمیں مراد آباد میں ایک انگریزی اسکول قائم کیا۔ پھر ایک سائنٹفک سوسائٹی قائم کی جہاں انگریزی سے تاریخ اور سیاسیات کی بعض کتابیں ترجمہ کروائیں۔ 1869ءمیں انگلستان گئے اور 1875ءمیں علی گڑھ میں مدرستہ العلوم قائم کیا جو بعد میں مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔
سر سید احمد خان نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں آثار الصنادید، خطباتِ احمدیہ، احکامِ طعام با اہل کتاب، قولِ متین در ابطال حرکت زمیں اور رسالہ اسبابِ بغاوت ہند زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی کی تصحیح کی، تزکِ جہانگیری شائع کروائی اور تاریخ سرکشی بجنور کو مرتب کیا۔ اس کے علاوہ ایک رسالہ تہذیب الاخلاق بھی جاری کیا اور قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنی شروع کی۔ تقریباً نصف قرآن تک پہنچی تھی کہ سرسید کا انتقال ہوگیا۔
سرسید احمد خاں کا بطور رہنمائے قوم سب سے اہم کارنامہ ان کی تعلیمی تحریک ہے۔
مغرب کی ترقی کا راز جاننے کے لیے انھوں نے برطانیہ کا دورہ بھی کیا اور اس کے مصارف وپرے کرنے کے لیے اپنا آبائی گھر فروخت کردیا۔
سرسید احمد خان نے 27 مارچ 1898ءکو وفات پائی۔ انہیں علی گڑھ میں ان کے مدرستہ العلوم میں سپرد خاک کیا گیا۔