کورونا کا معاملہ ایک قدرتی آفت کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی، ٹیکنالوجی اور وسائل کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وسائل اگر چہ محدود ہیں لیکن اس کے باوجود قومی اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ اس چیلنج سے نمٹا جا سکتا ہے۔ صورت حال کا یہ ایک پہلو ہے لیکن اس وبا کے آغاز کے ساتھ ہی ملک میں ایک پیچیدہ سیاسی بحران کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
اس بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے غیر مشروط تعاون کی پیشکش پر عوامی حلقوں کی طرف سے اطمینان کا اظہار کیا گیا تھا لیکن گزشتہ چند روز کے دوران میں جو سیاسی ماحول بنا ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں صورت حال مزید کشیدہ ہو جائے گی۔
کورونا کی وبا سے نمٹنے کے ضمن میں قومی حکمت عملی کے بارے میں اگر چہ کئی سوالات موجود ہیں لیکن اگر یہ مکمل طور پر اطمینان بخش بھی ہو جائے، اس صورت میں بھی دو نقصانات بہر صورت ہوں گے، ان میں ایک کا تعلق بڑھتے ہوئے جانی نقصان ہے اور دوسرے کا تعلق اقتصادی نقصانات سے ہے۔ وبائی صورت حال میں اس طرح کے نقصانات سے عوام میں بے چینی پیدا ہو گی۔ عوامی بے چینی کی یہ صورت حال حکومت کے لیے ایک غیر معمولی سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے اور تمام سیاسی جماعتوں کا کم سے کم نکات پر اتفاق ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح حکومت پر آنے والے دباؤ کی شدت میں کمی آ جاتی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
اس صورت حال میں آنے والے دنوں میں جب کورونا کے اثرات میں مزید وسعت پیدا ہو گی تو اس کے نتیجے میں حکومت پر عوامی دباؤ میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس ماحول میں جب حکومت کئی اطراف سے دباؤ کا شکار ہو گی، حکومت کی طرف سے تعاون کا ہاتھ جھٹک دیے جانے کے بعد شدید ناراضی کا شکار حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اس موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے دباؤ بڑھا دیں۔ اس صورت حال میں بحران کے ڈیڈ لاک میں بدل جانے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا جس سے موجودہ نظام بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اگر ملک کے کچھ درد مند حلقے یا کچھ قوتیں اس ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے کوئی کردار ادا کرتی بھی ہیں تو ممکن ہے کہ بیچ بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے لیکن آنے والے دنوں میں نظام استحکام کے راستے پر بہر حال نہیں جائے گا۔