شرم سے پانی پانی ہونا،پانی سر سے گزرنا،گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا اور دیدوں کا پانی ختم ہونا اردو کے ان تمام محاوروں میں ایک قدر مشترک ہے وه ہے پانی۔
پانی ایک ایسی نعمت ہے۔جس کے بنا روئےزمیں پر گزارا ممکن نہیں، پانی زندگی کی علامت ہے۔ پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے یہ دن
1993ء سے ہر 22 مارچ کومنایا جارہا ہے ۔ پر اس برس تو یوم آب پر کرونا نے پانی پھیر دیا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کوئی تقریب منعقدنہ ہوسکی۔
بر بنائے عقیدہ راقم مذکورہ یوم دس محرم کو ہونا چاہیے۔ مگر خیر یہ چونچلے تو اب شروع ہوئے ہیں جیسے عالمی یوم محبت۔عالمی یوم مادری زباں،عالمی یوم انسانی حقوق،ان میں عالمی یوم مزدور نسبتاپرانا ہے۔ باقی یار لوگ تو سب کو ہی چونچلے ہی گردانتے ہیں۔پر اس دن کا بنیادی مقصد لوگوں کو ترغیب دینا ہے کہ پانی احتیاط سے استعمال کریں۔اب کریں نہ کریں اس اقوام متحدہ کو کیا۔
مگر کراچی تو اکثرہی پانی دو،پانی دو فلاں علاقے کو پانی دو کی صداؤں سے گونجتا رہتا ہے۔ وه کراچی جسكی سڑکیں 50ءکے عشرے میں پانی سے بلا ناغہ دھلا کرتی تھیں۔وہاں کے رہائشی بلا ناغہ پینے کے پانی کی ترسیل کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان علاقوں میں جہاں قلت آب ہے وہاں گر بلدیہ کی جانب سے غلطی سے پانی دے بھی دیا جاۓ تو یار لوگ پانی کے بے دریغ و بے مہار استعمال کو اپنا اولین فرض مان لیتے ہیں۔ گاڑی بھی دھلے گی پائپ کی موٹی دھار کیساتھ،اور اوور ہیڈ ٹینک سے پانی بہہ بہہ کر جب تک گلی میں کیچڑ کا باعث نہ بنے سکون قلب کا سامان نہیں ہوتا۔نہ ہی پانی کی موٹر بند کرنے میں سرعت دکھائی جاتی ہے۔
نتیجہ پانی سڑکوں پر،بیماری گھروں کے اندر كیونكه نکاسی کا نظام تو عرصہ ہوا،قصہ پارینہ میں شمار ہوا۔
آج سے قریب قریب بیس برس قبل کراچی کے متوسط گھرانوں میں بھی پانی خرید کر پینے کا تصور نہیں تھا بس باورچی خانے کا نلكا کھولا اور جتنا چاہا پانی بھرلیا۔ منرل واٹر کاچلن عام نہیں ہوا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ آہستہ آہستہ پینے کے پانی نے ایک کاروباری شکل اختیار کر لی۔ جس سے کئی بااثرشخصیات کے مفادات وابستہ ہو گئے۔ اب ظاہر ہے پانی علاقوں میں کیسے فراہم ہو۔
یہ ہمارے عمومی رویے ایسے وقت میں ہیں جب ہم شدید قلت آب کے خطرناک دور سے صرف دو قدم کی دوری پر ہیں۔ اب کیا کریں،کس کا قصورہے،تعین کون کرے، حکومت کا، عوام کا، سوال موجود،جواب ندارد۔
اداره برائےترقئ معاشیات،پاکستان (PIDE) کی ایک تحقیق کہتی ہے کہ
“حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لئےایک چھ افراد پر مشتمل پاکستانی گھرانے کو کم از کم اوسطا 120 لیٹر پانی روزانہ درکار ہوتاہے۔” اب مہیا ہوتا ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے۔
عمومی طور پر پاکستانی معاشرے میں تربیت اطفال میں یہ نقطۂ نظر سمهجايا ہی نہیں جاتا کہ پانی کس قدر قیمتی شے ہے اور اسے برتنا کیسے ہے۔ نیتجہ طفل بالغ ہو کر بھی پانی کی اہمیت کے حوالے سے نابالغ ہی رہتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرائمری اسکول میں ہی اطفال کی تربیت اس نہج پر ہو کہ وه پانی کے زیاں کار نہ بنیں۔ پر ہمارے معاشرے کو اس مقام تک جانے میں شاید دو عشرے مزید درکار ہوں۔
اندازےمختلف ہوتے ہیں، لیکن ایک محتاط اندازہ کہتا ہےکہ اوسط امریکی فرد گھر کے اندرونی استعمال کے واسطے،روزانہ تقریبا 80-100 گیلن پانی استعمال کرتا ہے۔ آپ حیران ہوں گےیہ جان کرکہ گھریلو پانی کا سب سے زیادہ استعمال ٹوائلٹ فلش کرنے میں استعمال ہوتاہے،اور اس کے بعد غسل اورنہانے،دھونے میں، تو بھیایہ میں نہیں کہتا یہ ایک امریکی ویب سائٹwww.usgs.gov خود کہتی ہے۔اب وہ جانیں اورانکا کام اور پانی کے حوالے سے امریکا امیر ممالک میں ہی شمار ہوتا ہے۔ جو کہ ثابت ہوتا ہے ایک اورمحتاط اندازے کے مطابق برازیل8,233 کیوبک میٹر،روس4,067 کیوبک میٹر، امریکہ3,069 کیوبک میٹر، کینیڈا 2,902 کیوبک میٹر، چین 2,840 کے آبی زخائر رکھتا ہے جبکہ ہم صرف246.8 کیوبک میٹر کےحامل ہیں۔
وکی پیڈیا کے یہ زائدالمعیاد اعدادوشمار ہماری آنکھیں کھولنے کے کافی ہونے چاہئیں۔زائدالمعیاداس لئے کہ2011کے ہیں۔
ملکی سطح پر اس بات پر سب متفق ہیں پانی وافر ہونا چاہیے
پر کیسے؟ اس سوال پر سوال گندم جواب چنا والا حساب ہے۔ ہر کسی کا اپنا بیانیه ہے۔ ایک بڑا طبقہ ہے جواس بات پہ ایمان رکھتا ہے کہ پاكستانی آبی مسائل کا حل تعمیر کالا باغ ڈیم میں ہے جبکہ دوسرا طبقہ (وہ بھی تعداد میں کم نہیں) کالاباغ ڈیم کو تخریب کا دوسرا نام گردانتاہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے۔ پانی زخیرہ کریں۔ پھر کاشت کاری اور بجلی پیدا کریں جبکہ دوسرے کا خیال ہے۔ دریاؤں میں پانی کی روانی جاری رہنی چاہئیے تاکہ ساحلی علاقوں میں سمندر اور آگے نہ آئے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا آبی ذخیرہ تو بن نہ سکا،اور نہ ہی وافر پانی میسر کہ دریاؤں میں بہے۔
تم نفیری اور کہیں پہ سنی ہو گی
اس دھرتی پہ یا سناٹا یا کہرام
مصطفیٰ زیدی کےاس شعر کے مصداق ہمیں یاتوخشک سالی کا سامنا رہتا ہے یا سیلابی صورت حال کا، کبھی موسمیاتی تبدیلییاں اپنا رنگ دکھاتی ہیں تو کبھی بھارتی آبی جارحیت رنگ میں بھنگ ڈالتی ہے۔ اسکے مظاہر 2019 ء کے جولائی اگست میں سیلابی صورت حال کا سامنا کر کے بهگت چکے ہیں۔ خاص کر جب خشک ہوۓ دریائے راوی و چناب سیلاب سے دوچار ہوئے۔
پاکستان کا نہری نظام کاشت کاری کے لئےریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر اس کی از سر نو تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ آبی وسائل کی بچت کی جاسکے۔
دنیا کے دیگر ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا یا جاسکتا۔ جہاں فی ایکڑ ہمارے مقابلے میں کافی کم پانی استعمال کر کے زیادہ پیداوار حاصل کی جا رہی ہے۔
ڈرپ ایریگیش سسٹم پر سبسڈی یا آسان قرضے دے کر اس سے مزید استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
واپس آتے ہیں شہروں کی جانب گزرے وقتوں میں کراچی کے جن علاقوں تک میری رسائی تھی۔ وہاں پر پانی کی قلت تو یقیںنا تھی مگر ہر ایک گھر میں بورنگ (زیر زمیں پانی کے حصول کے کھودا جانے والا کنواں) نہیں ہوئی تھی۔ لوگ سرکاری طور پر ملنے والے پانی پر ہی اكتفا کرتے،پھر ہوا یوں ہر گزرتے دن کیساتھ پانی کی بندش طویل سے طویل ہوتی گئی اور سرکاری پانی ماهوار آنا شروع ہواتو علاقہ مکینوں نے بورنگ کو ہی تیربہدف نسخہ جانااور اپنے روزمرہ کے معمولات کا انحصار سرکاری پانی کے بجاۓ بورنگ کے پانی پر کر لیا۔ اب حال یہ ہے پہلے زیر زمیں پانی کی سطح جو تیس فٹ تھی اب وہاں نوے فٹ تک جا پہنچی۔
آگے “اللّه خیرتے بیڑے پار”
رہی سہی کسر وہ پانی جو ہماری ٹپکتی ہوئی ٹونٹیاں ضائع کر دیتی ہیں وہ پورا کر دیتی ہیں۔ناقص میٹریل غیر ہنر مند مزدور سونے پہ سہاگه۔ اقوام متحدہ اور تو کچھ کر نہیں سکتی کم ازکم اپنے تمام Least Developed Countries
کم ترقی يافته ممالک کے پلمبروں کی مفت تربیت کا اهتمام ہی کروادے۔ ورنہ ہوٹل میں ہونے والے سیمینار نشتند، گفتند ، برخاستند تک ہی رہیں گے۔ اور ہمارے جیسے ممالک کی ٹپکتی ہوئی ٹونٹیاں ان کی بڑی بڑی تقریروں اور پریزینٹیشن پر پانی پھیرتی رہیں گی۔
مصطفیٰ کمال کے کمال آفریں دور میں ایک نام پانی کے حوالے سے تواتر سے سنائی دیتا تھا۔K4 دعوی تھا کہ یہ منصوبہ کراچی کی پانی کی 80 فیصد ضروریات پوری کر دے گا۔مذکورہ منصوبہ آج بھی زیر تكمیل ہے۔ ایک خبر کے مطابق تو اسکی فزیبلٹی پر ہی اعترضات ہیں۔ اسکا اولین مرحلہ 2018 ء میں مکمل ہونا تھا۔مگر عمل ندارد۔
لاگت تھی 25 ارب، اب تخمینہ 100 ارب کا ہے۔ نہ جانے BRT پشاور کے نوحہ خواں K4 کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ کراچی آج بھی منتظر ہے اسکی تكمیل کا مگر تكمیل ندارد
اب سوال یہ اٹھتا ہے میں کیا کروں کہ میرا ضمیر مطمئن رہے کہ میں نے پانی کی بچت کرنے کی سعی کی
تربیت اطفال میں پانی کی اهمیت وقتا فوقتا اجاگر کریں۔ مستقبل میں یہ ہی عمل کریں گے ہم نہیں
دانت برش کرتےوقت نلكا بند کردیں
دوران غسل شاور کے بجاۓ بالٹی کو ترجیح دیں۔
گاڑی دھوتے وقت پائپ کے بجاۓ بالٹی استعمال کریں۔
قطرے، قطرےسے دریا بنتا ہے۔ لیکج چھوٹی ہو یا بڑی اسے ہلکانہ لیں فوری ٹھیک کروائیں
پانی کی دستیابی اور پھر اس کا بہترین استعمال ہی ممكنه قحط سالی سے ہمیں بچا سکتا ہے۔ ورنہ کیپ ٹاؤن میں ڈے زیرو کی پیشن گوئی کسی نے کوئی بیس برس قبل تھوڑی کی تھی ۔
خیر خشک باتیں بہت ہوگئیں۔ کھڑکی سے باہر بونداباندی کامزہ لیتے ہوئے خالد کرار کی عمدہ غزل جس میں پانی بطور ردیف برتا گیا مزے سے پڑھیں۔
بلا کی پیاس تھی حدِ نظر میں پانی تھا
کہ آج خواب میں صحرا تھا گھر میں پانی تھا
پھر اُس کے بعد مری رات، بے مثال ہوئی
اُدھر وہ شعلہ بدن تھا، اِدھر میں پانی تھا
نہ جانے خاک کے مژگاں پہ آبشار تھا کیا
مرا قصور تھا، میرے شرر میں پانی تھا
تمام عُمر یہ عُقدہ نہ وا ہوا مجھ پر
کہ ہاتھ میں تھا یا چشم خِضر میں پانی تھا
عجیب دشتِ تمنا سے تھا گزر خالدؔ
بدن میں ریگِ رواں تھی، سفر میں پانی تھا۔