
!پوسٹ کورونا
کورونا وائرس، جس نے ہر طرف خوف اور بے یقینی پھیلا رکھی ہے، اور نہ جانے یہ خطرناک ذرہ کتنی زندگیاں کھا کر ختم ہوگا، صرف ایک وقتی وبا ہی نہیں، بلکہ انسانی دنیا کی ایک نئی تشکیل کا آغاز بھی ہے. سیاست، مذہب، معاشرت، معشیت اور عالمگیریت کا ایک نیا تصوراور تشکیل ، کرونا کے بعد شروع ہوگی.
ریاستوں کی قومی اور بین الاقوامی سیاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کیا ہم مزید آپس میں لڑ کر، اور طاقت کے حصول کے لیے، خطرناک ہتھیار بنانے رہیں، دولت اور وقت اسی طرح ضائع کرتے رہیں اور ایسی خطرناک ایجادات سے فطرت کو مسلسل تباہ کرتے رہیں. یا انسان اور انسانی زندگی، اور بقیہ جانداروں کے لیے اس زمیں اور فطرت کے ماحول کو سازگار بنانے پر اپنی توجہ اور توانائیاں مرکوز کریں ، اسلحے اور ہتھیاروں کی بجائے،. تعلیم، صحت اورامن کے فروغ کو انسان کا سب سے بڑا مشن بنا کر انسان کی اس سیارے پر بقا کو آسان اور ممکن بنا سکیں،. بصورتِ دیگر انسان کا ا اجتماعی رویہ، اور ریاستوں کی بصیرت، اور سیاست کا مقصد ایسا ہی روایتی اور طاقت کے حصول کا رہا تو کورونا کی تباہی کا حتمی خاتمہ ممکن نہیں ہو سکے گا. بلکہ کرونا اور ایسے مزید وائرس کا خوف انسان کا کبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑیں گے.
کورونا، یہ ذرہ انسانی زندگی کے بعد سب سے زیادہ جسے متاثر کرے گا اورکر رہا ہے ، وہ دنیا بھر کے معاشروں کا روایتی ڈھانچہ ہے۔
کورونا سے معاشروں کی روائتی ساخت ختم ہو چکی.اب ہم عالمی سطح پر ایک نئی سماجی تشکیل کی طرٖف بڑھ رہیں ہیں۔ پہلے کی طرح سماجی آزادی اور بے فکری کا اختتام ہو چکا. کرونا کے خوف، اورخوف کے کرونا سے ایک نئی معاشرت کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اور یہ سماجی تشکیل روایتی نہیں، بلکہ “آن لائن” معاشرت ہوگا. جہاں انسانی تعلقات، لین دین، گفتگو، اور ملنا جلنا سب “آن لائن” ہوگا. اور دنیا کا جو معاشرہ اس “آن لائن” ٹیکنالوجی مکمل طور پر نہیں اپنائے گا، دنیا اسے قبول نہیں کرے گی. بلکہ ایسے معاشرے کو دقیانوسی اور جاہل سماج کر رد کر دے گی۔
“آن لائن”معاشرت کا تمام انحصار اور کنٹرول “ڈیٹاـ فراہم کرنے والی کمپنیوں کے پاس ہوگا. دنیا کی چار پانچ کمپنیاں، دنیا بھر کے معاشروں کو نہ صرف ’’آن لائن‘‘ سروسز فراہم کرنے میں زیادہ متحرک ہونگی، بلکہ اس ٹیکنالوجی اور سہولت کی فراہمی کو انسان اور معاشروں کے مابین مساوات کا بنیادی پیمانہ بھی سمجھا جائے گا۔ اور اسی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے جدید انسانی ذین اور سماجی شعور کو کنٹرول کیا جائے گا. کیونکہ ہر فرد اور سماج کا آن لائن کمیونیکیشن، سے لے کے تفریح اور تعلقات کا تمام تر ریکارڈ، ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنیوں کے پاس ہوگا. جس سے وہ بھی کسی بھی فرد اور معاشرے کو مکمل طور سمجھنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھیں گی.
اور یہی ڈیٹا اور اس کا کنٹرول اس صدی کی نئی معشییت ہے۔ پیداواری اور صنعتی معشیت بھی اسی ڈیٹا سے کنٹرول ہوگی۔ کورونا وائرس، یا ایسا کوئی وائرس کاغذ کے کرنسی نوٹ پر بھی ہو سکتا ہے، یہ خوف عام لوگوں کو بھی مکمل طور ڈیجیٹل اکانومی کی طرف لے جائے گا. اورفرد ہو یا معاشرہ، کوئی صنعت ہو یا ادارہ، سب کی ڈیجیٹل اکانومی کا تمام تر ریکارڈ آن لائن سروسز فراہم کرنے والی کمپنی کے استعمال میں بھی ہوگا۔ . اور جو فرد، معاشرہ، صنعت یا ادارہ اس آن الائن سروس کو نہیں اپنائے گا، وہ خود ہی بہت کم عرصے میں اپنے آپ کو دیمک کی طرح کھا کر ختم ہو جائے گا۔
اور سب سے بڑا چیلنج اہل مذہب کے لیے ہے.
مذہب کی روایتی انداز میں تقلید کرنے والے مزید شدت اور جنون کے ساتھ مذہب سے وابستہ ہوں گے. لیکن جدید مذہبی ذہن، روایتی طریقہ عبادت اور اصول دین کی بجائے “روحانیت اور انفرادیت” میں اپنی بقا سمجھے گا. (یہاں یہ واضح کرنا لازم ہے کہ، تصوف نہیں روحانیت، روایتی تصوف کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا)
دنیا میں آزاد اورلبرل فکر کی بنیاد،”انسانیت” کے ایک نئے تصور پر ہوگی.
جب کہ مذہبی فکر کی بنیاد روایتی عقائد کی بجائے،انسان کے اخلاقی وجود کی بنیاد پر ہوگی۔
دنیا کا سیاسی، سماجی ، معاشی اور فکری کنٹرول، ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنیوں اور چند ایک ویب سائٹس کے پاس مرتکز ہوگا۔
یوں، فطرت کا شعوری وجود، انسان ایک نئی تفریق اور تقسیم کا شکار ہوگا.
زندگی کے وجود اور فطرت کے سچ کے سامنے، سائنس کی طاقت پر انحصار انسان کے لیے ایک نئی کربلا بھی ثابت ہوگی.