محترمہ تزئین حسن پاکستان نژاد امریکی صحافی ہیں جو بہت اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ چین میں مسلمان ان کا پسندیدہ موضوع ہے جس پر انھوں نے بہت کام کررکھا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ اور نازک موضوع ہے جو کئی پہلو رکھتا ہے۔ محترمہ تزئین حسن جس کے ایک پہلو پر غیر معمولی مہارت رکھتی ہیں۔ اگر کوئی صاحب اس موضوع پر قلم اٹھانا چاہیں تو آوازہ کا پلیٹ فارم حاضر ہے
********************
کورونا کے خوف میں لپٹی ہوئی امت

کیا تم بھول گئے؟
چین نے اسلام کو خطر ناک وائرس قرار دے کر۔
ہم اوئی غور قوم کے لوگوں کو حراستی کیمپوں کے قرنطینہ میں ڈال رکھا ہے۔
اسلام نام کا یہ وائرس چین میں بہت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہمارے موبائل سے قرآن کی کوئ سورۃ نکل آئے
یا عربی رسم الخط میں لکھی ہماری اپنی زبان کی کو تحریر
یا ہم اپنے بچوں کا نام محمد یا عمر رکھ لیں
یا ہمارے گھر سے جائے نماز نکل آئے
یا ہم اجازت سے زیادہ بچے پیدا کر لیں
تو ہمیں دس سے بیس سال کی قید ہو سکتی ہے
کیونکہ اسلام نامی یہ وائرس بہت خطرناک ہے۔
یہ پھیل گیا تو بہت تباہی پھیلا دے گا۔
اگر ہم شراب پینے سے انکار کریں
یا سؤر کا گوشت کھانے سے انکار کریں
یا محض سگریٹ پینے سے ہی انکار کریں
تو اسکا مطلب ہے ہم اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں
ہمیں قرنطینہ میں ڈال کر مہینوں ہمارا علاج کیا جاتا ہے۔
ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کے ایک ہونے کا انکار کریں
اور شی جن پنگ کو اپنا مالک مان کر اس کا شکریہ ادا کریں
ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کا انکار کریں
اگر کوئی اس علاج میں تعاون نہ کرے تو اسے تشدد کا نشانہ بنا کر علاج پر راضی کیا جاتا ہے۔
کیونکہ اسلام بہت خطرناک وائرس ہے
یہ پھیلنا نہیں چاہئے۔
اب ہمیں بیگار کے لئے مشرقی چین کی فیکٹریوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
تم ادیداس، ایپل، سیم سنگ، کی پروڈکٹس استعمال کرتے ہو۔
وہ انہی تعذیبی کیمپوں سے فارغ اوئی غور ان فیکٹریوں میں تیار کرتے ہیں۔
یہ بڑے بڑے برانڈز مشرقی چین کی فیکٹریوں میں بنتے ہیں۔
چینی اخبارات آج کل شنکیانگ کی لیبر سپلائی کے اشتہارات چھاپتے ہیں۔
اوئی غور قوم ان اشتہارات میں کھلے عام بکتی ہے۔
ان اشتہارات میں یہ بھی درج ہوتا کہ ہمارے ساتھ سیکورٹی مفت ملے گی۔
ہمیں فیکٹریاں کرائے پر لیتی ہیں۔
یہاں بھی ہمیں قرآن پڑھنے یا عبادت کی اجازت نہیں۔
ہماری رہائش گاہوں کی مستقل تلاشی ہوتی ہے۔
ہم اب کیمپوں سے نکل کر بیگار کر رہے ہیں
لیکن اب بھی ہم سخت چینی سیکیورٹی کے گھیرے میں رہتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے
آپ ہمیں نہیں جانتے
آپ ہمیں امت کا حصہ نہیں سمجھتے
لیکن
ہم تعذیبی کیمپوں میں رہ کر بھی اپنے آپ کو امت کا حصہ سمجھتے ہیں
اور آپ کے لئے دعا گو ہیں۔
اللہ اپکو کورونا سے بچائے
اور اس قوم سے بھی بچا ئے جو اسلام کو وائرس سمجھتی ہے۔
کیونکہ اگر انہیں آپ پر بھی ایسا غلبہ حاصل ہو گیا جیسا ہم پر حاصل ہے تو یہ آپ کو بھی قرنطینہ میں منتقل کر دیں گے۔
کیوں کہ آپ بھی اسلام نامی اس وائرس کا شکار ہیں۔