ہم زمانے کی قید میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، ہمارے آس پاس کے حالات، معاشرہ ، اور دنیا ہمارے لۓ آئینے کا کام کرتا ہے جس کی نظر سے ہم معاملات کو پرکھتے ہیں اور ان کے غلط اور صحیح ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں،ہر دور کے جانچنے اور پرکھنے کے معیار مختلف ہوتے ہیں، انسانی تاریخ نے ایسے بہت سے آئینے بنتے ٹوٹتے دیکھے، ہم زیادہ دور نہیں جاتے ،سوشل ازم کی شکست کے بعد ایک نئ دنیا وجود میں آئی جسے فری ورلڈ کا نام دیا گیا، ریاست کا بنیادی کام قانون سازی اور فیسیلیٹیشن رہ گیا، جمہوریت بہترین نظام قرار پایا اور معاشی اشاریوں کو ہی ریاست کی طاقت اور عوام کی خوشحالی اور خوشی سے تعبیر کیا گیا،
اس آئینے کے مثبت پہلو میں سب سے نمایاں فرد کی آزادی تھی ، جس کا کچھ نہ کچھ فائدہ تیسری دنیا کے عوام کو بھی ملا،قصہ یہیں تک محدود نہی رہا، اینڈ آف ہسٹری اور پوسٹ ماڈرن ازم کے نعرے بھی بلند ہوۓ، جن کو سن کر ایسا محسوس ہوتا کہ شائد انسان حتمی نظام زندگی کا احاطہ کر چکا ہے،
اس کے باوجود میرا ذاتی تاثر ہے کہ دنیا آنے والے ماہ و سال میں ایک نیا آئینہ بنانے جا رہی ہے۔ میرا اشارہ کورونا کی وبا پر ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ان ممالک کو بھی جن کے آہینے کی بدولت ہم دنیا کو دیکھتے تھے،
اگر یہ سلسلہ مزید طوالت اختیار کر گیا تو اس کے سماجی، سیاسی ، معاشی اور نفسیاتی اثرات گہرے ہو سکتے ہیں، اور یہ تمام اثرات اس نقتے پر منحصر ہیں کہ کسی بھی ملک کے ریاستی ادارے اور معاشی انجنز یعنی کمپنیاں، مزہبی طبقات، اور حکومتیں کیا فیصلے کرتی ہیں،لیکن اگر یہ فیصلے عوامی فلاح کے مطابق نہی ہوتے تو دنیا ایک نۓ آئینے کی تشکیل کی طرف قدم بڑھاۓ گی جس کے خدوخال میں معاشی طاقت جسے اب تک سب سے زیادہ اہمیت دی گئ پس پشت جا سکتی ہے، اسی طرح عسکری طاقت کی نسبت عوام کی خوشحالی ، صحت تعلیم کو زیادہ فوقیت ملنے لگے، اور یہ سب “نعمتیں” کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح بن جائیں، اسی طرح روزگار کا تحفظ کا بھی کوئی نظام بن جاۓ جس کی ہمارے جیسے ملکوں میں اشد ضرورت ہے،
ایک اور اہم بات کہ مزہب اور انسان کا اپنے خالق سے تعلق کی بھی نوعیت تبدیل ہو سکتی ہے، جس کے انسان کے اخلاقی معیارات اور معاشرتی تعلق پر گہرے اثرات ہوں گے،
اسی طرح چین باقاعدہ دنیا کے دکھوں کے دارو کے طور پر ابھر سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو جمہوریت،انسانی حقوق، لبرل ازم کی نیئ تشریحات سامنے آئیں گی جو نۓ آہئنے کو بنانے میں Catalyst کا کردار ادا کریں گی،
علمی و فکری سطح پرایک نیا ادب بھی تشکیل پاۓ گا جو اس دور کی تبدیلیوں کے گرد ان گنت کہانیوں پر مبنی ہو گا جس میں بھوک اور خوف نمایاں ہوں گے۔ اسی بھوک اور خوف کے گرد سیاسی معاشی مذہبی اور اخلاقی نظام کی بنیادیں ہوں گی۔