
میں کبھی بھی تاریخ اور سیاست کا طالبعلم نہیں رہا مگر ساسانی تاریخ کے بارے یہ چھوٹی تقطعی کی مختصر سی کتاب میں نے کیوں خریدی تھی اب یاد پڑتا ہے کہ فہمیدہ ریاض کے ناول قلعہ فراموشی کو پڑھتے ہوۓ تاریخ ساسانیان کے بارے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کئ مقامات پر ناول کے سیاق و سباق کو سمجھنے میں مشکلات پیش آئیں۔
ایک روز پرانی کتابوں کے بازار میں یہ کتاب نظر آئی تو خرید لی سوچا کہ اگر مہلت ملی تو ناول کو دوبارہ پڑھنے کے دوران اس کتاب سے مدد لوں گا ناول تو دوبارہ نہیں پڑھ سکا مگر یہ کتاب خریدنے کے کم و بیش دو برس بعد پڑھنے کا اب موقع ملا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے تو اس کتاب کو بہت دلچسپ پایا محلاتی سازشیں،اپنوں سے خوف غیروں پر نگاہِ کرم،خوفِ شاہ کی وجہ سے کوئی وزیر اپنا عضو تناسل کاٹ کر شاہی خزانے میں بطور امانت جمع کرا رہا ہے اور کہیں فرمانبردار بیٹا اپنا بازو کاٹ کر باپ کے دربار میں پیش کر ہا ہے کہیں پڑھتے ہوۓ داستان سا لطف آیا اور کہیں ظلم و ستم کی کہانی کا گمان ہوا۔
اس مختصر سی کتاب کو لکھنے کے لۓ مصنف کو کیا کچھ نہ پڑھنا پڑا ہو گا 32 کتابوں کے حوالے کا تو انہوں نے ذکر کیا ہے پبلشرز یونائیٹڈ لمٹیڈ لاہور نے اس کتاب کو 1954 میں بڑے خوبصورت انداز میں شائع کیا کتاب میں ساسانی حکمرانوں کا شجرہ نسب بھی علیحدہ ورق پر شائع کر کے کتاب میں چسپاں کیا گیا ہے۔
اب یاد آیا کہ ایک زمانے میں ہم دوست یونائٹیڈ پبلیشر جاتے تھے جس کے جہازی دروازوں کے چمکتے ہوۓ پیتل کے دستوں پر لکھا ہوا یعنی مزید کتابیں خریدئیے۔،BUY MORE BOOKS ہوتا تھا
:مکرر
میں اس کتاب کو اپنی لائبریری کے تاریخ کے گوشے میں نہیں بلکہ گوشہِ فہمیدہ ریاض کے ذیل میں رکھوں گا کیا کسی مصنف کو سمجھنے کے لۓ ہمیں رفیقِ مطالعہ کتب کی ضرورت نہیں ہوتی۔
انگریزی میں جوائیس کے ناول کو سمجھنے کے لۓ بے شمار کتب دستیاب ہیں غالب کی کم و بیش جزوی و مکمل 60 کے قریب شرح تو میرے پاس ہیں آگ کا دریا پر بھی اسی حوالے سے ایک کتاب لکھی گئ۔