
کورونا کیا آیا کہ اقوام عالم میں بھونچال مچ گیا۔ اموات بڑھ رہی ہیں۔ متاثرین کی تعداد کا گرا ف اب اس قدر بلند ہوتا جارہا ہے کہ اسے دیکھ اور سن کر ہی وحشت اور بدن میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ کیا تعلیمی ادارے کیا کھیلوں کے میدان، کیا فضائی اور زمینی آمدرفت، کیا تقریبات اور کیا بازار سب بے رونقی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ کوئی پاس کھڑا ہوجائے، کوئی چھینک مار دے یا کھانس دے تو ڈر لگنے لگتا ہے کہ کورونا نے چمٹ گیا ہو۔۔ حد تو یہ ہے کہ عبادات تک محدود ہوگئی ہیں۔ گلی محلوں میں سناٹے کا راج ہے، سڑکوں پر ویرانی ہے دنیا، گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہو۔ کیونکہ باہر نکلے تو یہ ظالم وائرس، گھر جو لے آئیں گے۔جو محفلوں کی جان تھے، آج وہ اپنی جان بچانے کے لیے ’گوشہ تنہائی‘ میں ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن اور کرفیو کی خبریں نظروں کے سامنے سے گزرتی ہیں، تو احساس ہوتا ہے کہ انسان چاہے کتنی ترقی کرلے کتنے بم بنالے، کتنا ظلم اور بربادی ڈھا لے۔ وبائی اور قدرتی آفات کے سامنے واقعی بے بس اور لاچار ہے۔سپر پاورہونے کے دعوے دار بھی اب مصافحہ تک کرنے سے کنی کترارہے ہیں۔ ہر گزرتے پل کی خبرنیوز چینلز پر ’بریکنگ‘ کی صورت میں جھملاتی ہے۔ اور اسے بنانے، پیش اور بیان کرنے والوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے وہ ’وائرس پروف‘ ہیں۔ ایسے میں جب حکومتی نعرہ یہ ہے کہ میل جول سے اجتناب برتیں۔ عوامی مقامات پر نہ جائیں اور گھروں میں دبک کر بیٹھ جائیں۔۔ ذرا غور تو کریں جناب، یہ میڈیا ورکرز، چاہے ان کا تعلق نیوز چینلز سے ہو یا کسی ویب نیوز چینل سے ، یقینی خطرے کے باوجود، میدان میں ہی نظر آرہے ہیں۔ ’بے لگام اور چیختے چنگاڑتے میڈیا‘ کے طعنے سننے والے آج بھی وہیں کھڑے ہیں، جہاں کورونا وائرس سے پہلے تھے۔آج بھی انہیں جہاں شہر کی صورتحال، اسپتالوں کا حال، حکومتی عہدیداروں کے اقدامات یا پھر سیاسی رہنماؤں کے گھسے پٹے بیانات سے سجی پریس کانفرنس اور اجلاس،بروقت ایسے دینے ہیں جیسے ’کورونا وائرس‘ سے ان کا ’پکا یارانہ‘ ہے۔ حفاظت کے نام پر چہروں پر ماسک ہے یا پھر ہاتھوں میں سینٹی ٹائزر کی مہک اور مائیک ہے۔۔ بس اور کچھ نہیں۔۔۔ یہ ’ننھے منے اقدامات‘ کرکے وہ ’کورونا‘ کو شکست دینے کے لیے پرعزم بھی ہیں اور پرجوش بھی۔ کیمرا مین ہو، ڈی ایس این جی عملہ یا رپورٹربس یہی حفاظتی اقدامات کے سائے تلے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ ایسے میں جہاں ملک کے بیشتر شہروں میں لاک ڈاؤن ہورہا ہے۔ سرکاری اور نجی اداروں پر تالے لگے ہیں۔سخت حفاظتی اقدامات کی بار بار تاکید کی جارہی ہے۔ بازار وں میں اکا دکا لوگ ہیں۔ نوکریوں پر جانے والے گھروں میں ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھ کر خود کو باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ تو جناب یہ خبریں بھی ’راؤنڈ دی کلاک‘ آپ تک نیوز چینلز کے ’سپاہی‘ ہی لارہے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر آپ کو یہ پیغام دینا ہے کہ اس موذی مرض کا شکار نہ ہوں ۔۔اب یہ آج سے تین چار سال پہلا والا دور تو ہے نہیں کہ جب میڈیا ہاؤسز میں ملازمین کی ’ظفر موج ہوتی تھی۔ نیوز روم اور ملازمین کے حالات زبان زد عام ہیں۔ ’گھبرانا نہیں والی سرکار‘ نے ایسا گھبرایا ہے کہ سب کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ بے چارے اور معصوم میڈیا ورکرز پھر بھی تندہی اور جانفشانی کے ساتھ لگے ہیں۔فیلڈ میں ہی نہیں جناب نیوز روم میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول ہے۔ تبدیلی جس طرح ملک میں نہیں آئی وہیں ’کورونا وائرس‘ کے بعد نیوز روم میں بھی نہیں۔ نظارہ کچھ یوں ہے کہ نیوز اینکرز کو تازہ ترین خبریں پیش کرنی ہیں تو ان کی تیاری بھی وہی ہے۔ وہ بھی گھروں سے نکل کر یہی نصیحت کررہی ہیں کہ گھرو ں میں رہیں ۔ میک اپ کرنے والے بھی حاضر۔مارننگ شوز والے کورونا سے بچنے کے طریقے بیان کررہے ہیں۔ میل جول سے دور اور احتیاط کے مشورے دینے کا درس دینے کے باوجود سب موجود۔۔کیا ہوا کھیل جو نہیں ہورہا ، کوئی ریکارڈ نہیں ٹوٹا، کوئی ایونٹ نہیں ہوا ۔ اسپورٹس ڈیسک یہ تو بتاسکتی ہے کہ کس کس کھلاڑی کو کوورنا وائرس ہوا ہے، کس کا ٹیسٹ منفی آیا ۔ فلموں کا کاروبار ٹھپ ہوگیا تو کیا، انٹرنٹمینٹ ڈیسک یہ پیکج تو دے سکتی ہے کہ کس سپر اسٹار یا گلوکار نے کورونا وائرس پر کیا پیغام دیا، کس نے کون سا ’کورونا نغمہ‘ گنگنایا۔اب ایسی صورتحال میں انٹر نیشنل ڈیسک کا ہونا تو لازمی ہے ہی، دنیا کے حالات سے بھی آگاہی چاہیے۔ ٹکرز ڈیسک بھی ’حاضر جناب‘ کا نعرہ لگا کر اموات او ر اقدامات سے ’اپ ٹو ڈیٹ‘ کررہی ہے۔ خواتین اسٹاف ایک ہی ’وین‘ میں ہوکر سوار ’کورونا وائرس‘ کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہیں ۔ کیا اسائمنٹ، کیانیوز ڈیسک، کیا ایم سی آر اور یا آئی ٹی، اور کیا نیوز چینلز کا کوئی اور شعبہ۔ سب ’کورونا وائرس‘ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی باقاعدگی سے الہ دین کے چراغ کے جن کی طرح حاضر ، ایڈیٹرز، پروڈیوسرز کے ساتھ مل کر اچھے شارٹس کی تلاش میں لگے ہیں، مونٹاج بن رہے ہیں،گرافکس کے نئے آئیڈیاز پر غور ہورہا ہے۔ کنٹرولر نیوز ہوں یا ڈائریکٹر نیوز، اب یہ بھی گھر بیٹھ کر حکم چلانے سے رہے ، ہر ہنگامی حالت میں نیوز روم میں ان کی حسب روایت موجودگی ’لیڈنگ فرام دی فرنٹ‘ کا پھر سے عملی ثبوت دے رہی ہے۔احتیاط اور حفاظت بس یہ ہے کہ بار بار ہاتھ دھونا، چہرے پر ماسک لگانا ، گلے نہیں لگنا، مصافحہ نہیں کرنا۔ اور پھر ’کورونا وائرس‘ کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے سینی ٹائزر مل کر اللہ توکل پر ’عالم گیر جہاد‘ میں حصہ لینا ۔ تو حضوروالا جس طرح عید تہوار، ہڑتال احتجاج پر میڈیا ورکرز کا کچھ نہیں بگاڑتے تو اس بار بھی وہ سیسہ پلائی کی دیوار بنے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ لوہے کے بنے ہوں، جن کا دنیا کا کوئی بھی خطرناک وائرس کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ آپ مصافحہ تو اب کرنہیں سکتے تو گھر بیٹھ کر ان کے لیے تالی ضرور بجادیں۔ ٭