
صحرائے گوبی سے اٹھنے والے طوفان کرونا کا مزاج چنگیز خان کی طرح جارحانہ ہے۔۔۔جو سامنے آئے اسے نیست و نابود کر دو۔۔۔یعنی ہم اس چنگیز خان سے محفوظ پناہ گاہوں میں ہی اپنا بچاو کر سکتے ہیں۔۔
کل شام وزیراعظم عمران خان صاحب کے ایک قریبی دوست سے میری بات ہوئی۔۔۔انھوں نے کہا کہ لاک ڈاون سے پہلے مجھے کون ضمانت دے گا۔۔کہ عام مزدور طبقہ بھوک سے نہیں مرے گا۔۔۔دیکھا جائے تو مجھ سمیت اب تک ہم سب نے خان صاحب کی نیت پر شک کیا ہے۔۔۔مجموعی طور پر ہم خود غرض قوم ہیں۔۔ماسک،میڈیسن اور حتی پیاز تک کس نے مہنگے کیے۔۔۔؟ ایئرپورٹ لاکھوں کی مراعات لینے والے پی۔آئی۔اے افسران نے محض چھے ہزار روپوں میں کرونا کو ملک میں پھیلنے کا راستہ دیا۔۔
یعنی کرونا کا مقابلہ قوم کے کردار نے کرنا ہے۔۔
خیر عمران صاحب کی بات میں وزن ہے۔۔۔
اب آتے ہیں علمائے کرام کے کردار کی طرف۔۔۔
ماضی میں مساجد ہماری خوشی،غمی کا مرکز رہی ہیں۔۔یہ ہمارے پاس بہت بڑا ادارہ ہے ۔۔چاہے وہ کسی مسلک کی مسجد ہو۔۔۔آج ہم نے مسجد کی کمیٹیوں کو خدمت خلق کمیٹی میں بدلنا ہوگا۔۔
اور اس سلسلے میں میری تمام مسالک کے علمائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ آئمہ کرام کی نگرانی میں آج ہی سے ان اہداف کے حصول پر کام شروع کر دیں۔۔
اول: اپنے علاقے کے ان غربا،مزدور اور مجبور خاندانوں کی فہرست مرتب کر دیں۔جو لاک ڈاون سے مشکلات کا شکار ہوں گے۔
دوم: العموم مسجد کمیٹیاں مخیر حضرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔۔(اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ رمضان المبارک میں مساجد کمیٹیاں روزانہ غریب روزہ داروں کے لیے افطار کا اہتمام کرتی ہیں)اس لیے مخیر حضرات سے صدقہ،خیرات کی مد میں نقد یا راشن کی صورت میں امداد لی جائے۔
xسوم: تیسرے مرحلے میں غربا اور متاثرین کو خوردونوش کا سامان پہنچایا جائے۔
چہارم: امید افزا خبر یہ ہے کہاسلامی نظریاتی کونسل نے برقوت یہ فیصلہ جاری کر دیا ہے کہ رمضان کا انتظار کیے بغیر زکوات مستحقین کو دی جاسکتی ہے۔۔اس حوالے سے بھی علمائے کرام مخیر حضرات کو متحرک کر سکتے ہیں۔۔
پنجم: امدادی سامان کی تقسیم کے لیے یہ شرط رکھی جائے کہ یہ صرف گھر پر ہی تقسیم کی جائیں گی۔۔
ششم: اس مقصد کے لیے امدادی سامان پہنچانے والے ماسک سمیت تمام حفاظتی اقدامات کر چکے ہوں۔
ہفتم :علمائے کرام رائے سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔۔وہ لاوڈ سپیکر کے ذریعے عوام کو ہدایت کریں کہ گھر سے باہر نکل کر اپنی اور دوسرے انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا جرم ہی نہیں گناہ بھی ہے۔۔
ہشتم: س مشن میں اقلیتی برداری کے مستحقین بھی شامل کیے جائیں۔
دیکھا جائے تو مسجد کمیٹیوں کی شکل میں ایک موثر اور منظم نیٹ ورک موجود ہے۔۔بس اسے چند دنوں کے لیے فعال کرنا ہوگا۔
میری تمام مسالک کے علمائے کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں قوم کی رہنمائی اور خدمت کے لیے مساجد کمیٹیوں کو فعال کریں۔۔قوم آپ کے ساتھ ہے۔۔