
(شہر خالی،رستہ خالی،کوچہ خالی،گھر خالی
جام خالی،دسترخوان خالی،ساغرو پیمانہ خالی
ہمارے دوست و بلبلیں دستہ دستہ کر کے کوچ گئے
باغ خالی باغیچہ خالی شاخیں خالی گھونسلے خالی)
(دنیا پر افسوس کہ جہاں دوست دوست سے ڈر رہا ہے
جہاں غنچہ ہائے تشنہ باغ ہی سے ڈر رہا ہے
جہاں عاشق اپنے دلدار کی آواز سے ہی ڈر رہا ہے
جہاں موسیقاروں کے ہاتھ تارِساز سے ڈر رہے ہیں
شہسوار ہموار رستے سے ڈ ر رہا ہے
طبیب بیمارکو دیکھنے سے ڈر رہا ہے)
حافظ کی فارسی نظم کے منتخب بندوں کا ترجمہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ صورت حال کی بہترین عکاس ہے مگر عمومی طور وبا کوئی بھی ہو بیماری کیسی بھی ہو نہ ہم بحثیت قوم گهبر اتے ہیں نہ ہی کسی خاطر میں لاتے ہیں ۔ہیٹ ویو 1500 سو لوگ مار ڈالے۔ ڈینگی 2000 جانیں نگل لے کوئی مسلہ نہیں۔تھر پار کر میں نوزائیدہ بچے مرتے ہیں تو مر جائیں ۔۔ ہمیں کیا ۔۔ہم سب اپنی انکھ سے آگے دیکھنے کی بصارت ہی شاید کھو چکے ہیں۔ میں ،میرا ،میرے سے آگے اکثر ہماری سوچ نے سوچنا چھوڑ رکھا ہے۔ یا . شاید جان بوجھ کر ہماری سوچ کی موجو ں کو مقید کردیا گیا ہے ۔
. . . بلدیه ٹاؤن میں 250 مزدور جل کے راکھ ہو گئے تو مجھے کیا، میں کیا مل مزدور ہوں؟ کراچی سرکلر ریلوے کے نام پر 2500 لوگ بےگھر ہوجائیں تو کیا میری چھت توسلامت ہے۔بحریہ ٹاؤن اوردیگر مافیا توابھی کراچی کے قدیم گوٹھوں پرہی قابض ہوئےہیں قدیمی کالونیاں تو فی الوقت محفوظ ہیں، چلو شکرہےاللّه کا، . . . ہماری عمومی سوچ یہیں تک رہتی ہے۔
. . . ہیٹ ویواور ڈینگی کی تو موسم نے معیاد مقرر کر دی تھی پر اسکےباوجود دونوں کی ہلا کتیں ملا کر تعداد تقریبا تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ مگر بقول حضرت جون اولیاء “ہم نے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کیا” تو ہم نے سبق نہ سیکھناتھا اور نہ سیکھا۔
مذہبی سیاحت پاکستان میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ایک مہنگا شغل بنتی جا رہی ہے۔عمرہ ڈیڑھ لاکھ زیارت ڈیڑھ لاکھ (بہ ذریعہ ہوائی جہاز) کی پڑتی ہیں۔ بذریعہ سڑک غریب عوام الناس ہی زیارتیں کرنا منتخب کرتے ہیں۔ تا کہ کم وسائل میں سفر کی صعوبتیں اٹھا کر حاضری دے آئیں۔ عمرہ بزریعہ سڑک یا آبی جہاز کے اب ممكنات میں سے نہیں رہا۔ بزر یعہ سڑک زیارت انے جانے کے لیے تفتان بارڈر استمال ہوتا ہے۔ہونا تو یہ چایے تھا کہ تفتان وقت کے ساتھ ساتھ ایک جدید شہر کی صورت اختیار کرتا جہاں تمام سہو لیات موجود ہوتیں مگر شومئی قسمت ایسے ہمارے ملک کے نصیب کہاں یہاں تو ترقی معکوس کی جانب جو کچھ بہتر شہر تھے وه بھی گامزن ہیں۔
. . . . . . تفتان قرنطنیه مرکز میں سہولیات کی کمیابی کارونا ہر جانب سنائی دیا پر یہ نقطۂ نظر صریحانظرانداز ہوا کہ کوئی ایسی سہولت جو انکے مقامی باشندوں کو میسر تھی اور وه انہوں نے آپ تک بہم نہ پہنچائی تو وه قصور وار . جب کوئی خاطر خواہ سہولت خود انکے پاس نہ ہو تو وه کیا کریں ۔ جی ہاں یہ ذکر ایک زائر نے خود بیان کیا 1996ء کا واقعہ ہے “جب تفتان میں رکے تو استنجا ء کے لیے دستیاب پانی ڈھونڈ نے میں دو کوس چلنا پڑا،پانی دو کوس بعد ملا مگر پیٹرول بیچنے والے جا بجا ملے ” لگتا ہے ابھی بھی یہی حال ہے۔ اکثر دور افتاده محل وقوع پر رہنے والے پانی کی کم یابی کا نو حہ پڑھتے سنائی دیتے ہیں ۔ خاص کر کرونا وبائی صورت حال میں جہاں ہر طرف یہ شور سنائی دے رہا ہو ہاتھ صابن اور پانی کے ساتھ ہر دس منٹ بعد دھوئیں صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ اب ان لوگوں کا کیا جو تین ڈبے پانی میں پورا دن گزارتے ہیں یہ حال سندھ و بلوچستان کے ریگستانی و پہاڑی علاقوں کا تو ہے ہی مگر کراچی جیسے شہر میں کئی ایسےعلاقے ہیں جہاں کے باسی ڈبو ں میں پانی لاکر ہی گزارا کرتے ہیں ان کا کیا ۔ اب وه کیا کریں ملک الموت کا انتظار ؟؟؟؟؟
. . . قبل از 5 جنوری چین بالعموم اور ووہان کی انتظامیہ بالخصوص یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھی کہ یہ کوئی وبائی صورت کا پیش خیمہ ہے۔34 سالہ ڈاکٹر لی کو پابند سلا سل کیا گیا،ناحق خوف و ہراس پھیلانے کے جرم میں،
آنجہانی ڈاکٹر کے اہل خانہ سے چین کی حکومت آج معافی کی طلب گار ہوئی۔ گرچہ اس وبا ء کے ظہور کے بعد چینی حکومت نے جس سختی سے اس وبا ء کو کچلا ہے وه قابل ستائش ضرور مگر قابل عمل شاید ہمارے معاشرے کے لیے نہ ہو۔ یہاں تو اسکول کی چھٹی ہوئی تو لوگ تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے بغیر سوچے،سمجھے کے یہ چھٹیاں کیوں دی گئی ہیں ۔ وہاں انہوں نے مہینوں کاکام دنوں میں کر کے اسپتال کھڑا کیا، مریضوں کو صحت یاب کیا اور اب اسپتال بند قریبا دو مہینے کی محنت شاقہ کے بعد اب وہاں ڈاکٹرز ،پیرا میڈیکل اسٹاف اور ہیلتھ ورکرز کو جبری چھٹیوں پر بھیجا جا رہا ہے کہ اب کچھ آرام بھی کر لو۔لاک داؤن کیا تو مکمل لاک ڈاؤن،چھٹی کی تو مکمل چھٹی۔آدھا تیتر،آدھا بٹیر والا معاملہ نہیں رکھا کہ وزیر آعلیٰ کہے ہم لاک داؤن کر سکتے ہیں اور وزیر اعظم کہے ہم غریب ملک ہیں ہم لاک داؤن نہیں کر سکتے۔
. . . آج کی خبریں دیکھتے ہوئے اچانک اب سے دس بارہ برس پہلے کا احوال یاد آگیا جب بریکنگ نیوز کےطور کسی دھماکے کی اطلاع دی جاتی تھی اور ہر گھنٹے بعد اموات کی تعداد بتائی جاتی تھی آج کل اموات کے بجاۓ کرونا کے اتنے کیس رپورٹ ہو گئے یہ نمبر میڈیا کی بریکنگ نیوز ہیں ۔ کتنے صحتیاب ہوئے اس سے کسی کو سروکار نہیں کہ کچھ امید کی فضا پیدا ہو سکے۔
شاید اصل بیمار تعداد میں اور زیادہ ہوں مگر جس انداز سے اب عمومی طور پر ہمارا معاشرہ پیش آرہا ہے حقیقی تعداد کا تعین ممکن نہ ہو سکے۔ بیلجیم آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے بہت چھوٹا ملک ہے اور وہاں قریبا تین ہزار افراد کرونا سے متاثر ہیں۔ اور پاکستان میں صرف ساڑھے 5 سو۔ تو کیا ہم زیادہ محفوظ۔؟ نہیں جناب من شاید ہماری آبادی کا اس سطح پر جاکے کرونا ٹیسٹ کیا جائے تو نتیجہ شاید اتنا اچھا نہ ہو۔ وه تو بھلا ہو مھنگے ٹیسٹ کا جس نے ابھی تک بھرم قائم رکھا ہے ۔ نجی طور پر ٹیسٹ کے لیے دس ہزار روپے کوئی مفلوک الحال یا سفید پوش بھی خرچ کر نہیں سکتا اور سرکاری سطح پر دی جانیوالی سہولیات شکوک میں ہی گھری رہتی ہیں۔ یہاں تک کے سفید پوش لوگ مقروض ہونا قبول کرتے ہیں تا کہ نجی اسپتالوں میں جا سکیں مگر سرکاری اسپتالوں میں نہیں جاتے۔ یہ اعتماد کا فقدان ختم کرنے کا موقع بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
. . . . ایسے مواقع صدیوں میں آتے ہیں .. یہ موقع ہے ریاست کے نظام صحت پر عوام الناس کا اعتماد بحال کرانے کا۔ کہا جاتا ہے ہر صدی کے دوسرے عشرے میں پوری دنیا میں وبائی امراض پھوٹتے ہیں۔ ١٩٢٠ سپیش فلو ٢٠٢٠ کرونا وغیرہ ۔
. . .اب سے تقریبا دو ہفتے قبل حکومت کے سخت ناقدین بھی حکومت کو داد دینے پر مجبور ہوئے۔مگر حکومت نیک نامی برقرار نہ رکھ پائی۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کے ماسک کا اسکینڈل سنائی دیا تو ذوالفقار حسین بخاری کی اقرابا پر ور ی کے قصے زبان زد عام . رہی سہی کسر سندھ حکومت نے پوری کر دی ۔ سندھ حکومت کو داد نہ دینا بھی زیادتی ہو گی۔ جنکا صرف بھٹو زندہ ہوتاہے انہوں نے اس دفعہ باقی زندوں کے لیے کا م کرنے کی سعی تو کی،
اگر مراد علی شاہ سندھ کی حد تک ہی لوگوں کا اعتماد سرکاری نظام صحت پر بحال کروانے میں کامیاب ہو گیا تو پھر یہ شاید PPP کی اب تک کی سب سے بڑ ی کامیابی گردانی جائے گی۔ مختصر یہ مشیت ایزدی جان کر سب کچھ چھوڑا نہیں جاسکتا ہے۔ کام تو کرنا پڑے گا اور سب کو کرنا پڑے گا۔ جو سہولتیں کلفٹن میں ہے وہی یا تھوڑی کم۔ کرکے اورنگی ٹاؤن میں بھی دینی ہوں گی۔ تفتان دور بہت ہے کہ کے جان نہیں چھڑ وائی جاسکتی۔ وہاں سہولیات دینی ہوں گی۔ ورنہ وبا ء ایک جگہ تو محدود نہیں رہتی، مصیبت کا کوئی ایک گھر نہیں ہوتا۔
حرام کھایا جائے گا ووہان میں اور بھگتا جاۓ گا سارے جہاں میں۔ كیونكه دنیا اب اک گلوبل ویلج بھی تو ہے۔