
اب جبکہ کرونا وایرس کاعفریت پوری دنیا کو لپیٹ میں لے چکا، ٹی وی چینلزسے عام ادمی تک ہر کوئی اس پربات کررہا ہے توایسے میں جراثیمی وارکے بارے بات کرنااورسمجھانا بھی اسان ہوچکا، بات کھل کرنہیں کی جاسکتی صرف اشارے دیئے جاسکتے ہیں ،
35 سال پہلے جب میں میٹرک کا سٹوڈنٹ تھا توچند ارٹکلزایسے پڑھے جواس وقت مزاق یا سائینس فکشن لگتے تھے لیکن اج وہی بھیانک روپ دھارکرہمارا منہ چڑارہے ہیں ۔
ہمارے گھر اس وقت بہت سے اخبارات اور میگزین اتے تھے ، میرے والد کو فارسی اورانگلش میگزین کا شوق تھا ،میرا زیادہ وقت بھی سیریس سیاسی علمی کتابوں کے مطالعے میں گذرتا۔ میری نظرسے بہت سی غیر معمولی باتیں گذرتی رہتیں۔
لڑکپن میں چارایسے اڑٹکلزپڑھے جواب تک یاد ہیں ۔
جراثیمی جنگ کی تیاریاں
اگلی جنگیں پٹرول نہیں پانی پر ہوں گی
دنیا میں ہرجگہ کمپیوٹرہوگا اورہرجگہ غیرملکی ٹی وی دیکھے جاسکیں گے
اڑنے والی ٹیکسی بنے گی ۔
یہ آرٹیکلزپڑھے تو عمروعیارکی کہانی طلسم ہوشربا سے بھی حیران کن لگے کیونکہ وہ محدود سی دنیا تھی ، صرف پی ٹی وی کا وجود تھا جو رات دس گیارہ بجے بند ہوجاتا ، پانی کی فراوانی تھی اور جراثیم کا تصور بھی نہ تھا۔
جراثیمی وار سے متعلق کسی سائینسی جریدے میں دو تین صفحات کا آرٹیکل تھا جوامریکا یا انگلینڈکے کسی ریسرچ پیپرکا اردو ترجمہ تھا جس میں مصنف نے دعوا کیا کہ ویران جزیروں میں خطرناک جراثیم کے تجربے کئے جارہئے ہیں، جراثیم محفوظ کرلئے جائیں گےپھر ہتھیارکے طوراستعمال کیا جائے گا ،اسے بائیولوجکل وار کا نام دیاگیا تھا۔ اس وقت سوویت یونین موجود تھا۔ چونکہ سوویت یونین ایک کنٹرولڈ ملک تھا ،کوئی رپورٹ شایع نہیں ہوسکتی تھی تواس کی تیاریوں بارے پتہ نہیں تھا لیکن باقی تحقیقاتی رپورٹس لیک ہورہی تھیں ،اسی زمانے میں ایڈزکا دھماکا بھی ہوا تھا ، یعنی ایچ ایی وی وائرس سامنے ایا اور ماہرین اس پر متفق ہیں کہ یہ قدرتی وائرس نہیں بلکہ لیبارٹری میں تیارکردہ ہے ، اس کا پہلا تجربہ افریقہ میں کیاگیا اوروہاں سے دنیا میں پھیلایا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت بھی ہمارے دانشور اور علما اسےاسمانی عذاب کی شکل قراردینے کی اسی طرح ضد کررہے تھےجس طرح ٓج کرونا کو قراردیا جارہا ہے حالانکہ کرونا وائرس نیا نہیں ، بل گیٹس بھی اس بارے اٹھ سال پہلے بات کرچکا ہے، خود میں جو کلوریکس وائپس استمعال کرتا ہوں اس پر کرونا وایرس لکھا ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ سے ہے ،ماہرین کا اس پراتفاق ہے کہ کرونا بھی لیبارٹری کا تیارکردہ وائرس ہے۔ اس کا گناہ ثواب سے کوئی تعلق نہیں ۔
دوسرا ارٹکل پانی کے بحران سے متعلق تھا کہ اگلی جنگیں پانی کے وسائل پر قبضے کےلئے لڑی جائیں گی، پٹرول کی اہمیت ختم ہوجائے گی اور وہی ملک پاور فل اور ریسورس فل ہوگا جس کےقبضے میں پانی کے زخائر ہوں گے ، یہ ارٹکل حیران کن تھا کیونکہ اس وقت پانی بکثرت تھا، دریا بھرے ہوئے تھے،دنیا میں کہیں بھی پانی کی قلت نہ تھی ،پھرجنرل ضیا کے دور میں دیکھا کہ سرائکی تحریک شروع کروائی گئی اور سرائکی صوبے کا نقشہ اس طرح ترتیب دیا گیا کہ انڈس ریورپنجاب کی حدود سے باہرکردیا گیا یعنی پنجاب کو پانی کے وسائل سے محروم کردیا گیا، جنرل ضیا اپنے وقتی زاتی مفادات اور چالاکیوں کے سوا قومی اور علمی معاملات کی زیادہ فہم نہیں رکھتا تھا ، ثبوت سرائکی تحریک کی سپورٹ ، میڈیا کوریج ، سندھی نیشنلسٹوں سے پی پی دشمنی میں اس کے قریبی تعلقات ہیں ، سیاچن پر انڈیا کا قبضہ تاکہ انڈس ریورکاکنٹرول اوپر سے کیا جاسکے ، انڈیا نے جہلم اور چناب دریاؤں کے پانی بھی کنٹرول کرنا شروع کردئے جبکہ پنجاب غزوہ ہند اور محمود غزنوی کے قصوں میں گم رہا، دنیا کے دوسرے ملکوں مڈل ایسٹ میں اسرائیل ، ترکی نے بھی دجلہ ، فرات ، گولان ، دریائے اردن کے ابی وسائل پر چپقلش شروع کردی جبکہ افریقہ میں دریائے نیل پر مصرکی ایتھوپیا ،سوڈان سے چپقلش شروع ہوگئی ، تو ابی وار اج کا نظریہ نہیں ہے ،مغربی ماہرین نے چالیس سال پہلے اس خطرے بارے اگاہ کردیا تھا۔
تیسرا ارٹکل دنیا بھرکے ٹی وی چینلز گھر بیٹھے دیکھنے بارے تھا کیونکہ اس وقت پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی، صرف ایک ڈراما نشرہوتاجبکہ ہفتے میں ایک فلم دکھائی جاتی اور وہ بھی ملک کواسلامی بنانے کے چکر میں بند کردی گئی ، اس لئے یہ تصوربڑا عجیب لگاکہ ہم پاکستان میں بیٹھے امریکا م یورپ اسٹریلیا کے چینلز دیکھ رہے ہوں گے
چوتھا ارٹکل جس کا تذکرہ کرنا چاہوں گا کہ اڑنے والی ٹیکسی ایجاد ہوگی جوٹریفک جام میں اڑکر دوسری طرف نکل جائے گی اور پھرسڑک پر چلنا شروع کردے گی ، مصنف نے اس کا نام ہیلی ٹیکسی رکھا تھا۔
یہ چاروں چیزین اج کی حقیقت بن چکیں ، اس وقت یہ خواب لگتا تھا ، جب ان آرٹیکلز کا ذکر کچھ لوگوں سے کیا تو سب نےمذاق اڑایا کہ زیادہ پڑھنے سے تیرا دماغ چل گیا ہے ، میں سوچتا تھا کہ جن باتوں کی مغرب میں ریسرچ ہورہی ہے اس پر ہمارے لوگ یقین کرنے کو بھی تیار نہیں تویہ دنیا کا مقابلہ کسیے کریں گے ؟آج بھی پاکستان کے چینلزپر اینکرز اور تجزیہ کاروں کے احمقانہ تجزئئے سنتا ہوں توہنسی چھوٹ جاتی ہے کہ یہ کیا کیا تاویلیں گھڑکر قوم کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔