
اکثر احباب فیس بک اور سوشل میڈیا پر میرے ردعمل کو جو کہ اکثر وبیشتر ❤ ہوتا ہے۔۔مجھ سے پوچھتے ہین کہ آپ ہر بات کے جواب مین ایک ہی ردعمل کیون دیتے ہین۔۔تو آپ سب کے لیے عرض ہے کہ اس حقیر فقیر پر تقصیر کے پاس دینے کیلیے اس کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔(ویسے بھی اس کا فائدہ یہ ہے کہ یاتو مین آپ سے متفق ہون ورنہ اتنا ضرور ہے کہ مین اختلاف کے باوجود آپ کی رائے کا دل❤سے احترام کرتا ہون) ۔۔۔۔۔۔
یہ بات صرف کتابین اور شاعری پڑھنے سے نہی آتی بلکہ زندگی سکھاتی ہے۔۔کچھ جلد سمجھ جاتے ہین اور کچھ تاخیرسے۔۔۔
بات کچھ یون ہے کہ اللہ رب العزت نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو سب سے پہلے اسے اپنی مخلوق سے محبت ہوگئی۔۔اسی لیے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جب مین نے مخلوق کو پیداکیا تو میری محبت اور رحم میرےغیض وغضب پرچھاگیا۔۔۔
خود رسول اللہ ص بشیر و نزیر بنا کر بھیجے گئے تھے(خو شخبری دینے والا اور ڈرانے والا) لیکن آپ نے فرمایا لوگون کو خو ش خبری اور بشارت دو اور امید دلاوُ۔۔انھین خوفزدہ مت کرو اور نہ ڈراکر دین سے دور و مایوس کرو۔۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو رحمت اللعالمین کا لقب عطا ہوا۔۔۔
ایک شخص دوسرے کو مسکراہٹ اور محبت کے سوا کیا دےسکتا ہے۔۔یہی وہ شے ہے جس مین کچھ خرچ نہی ہوتا مگر پھر بھی انمول ہے۔اسی لیے آپ کا اپنے بھائ کیلیے مسکرادینا بھی صدقہ ہے۔۔۔
محبت کا معاملہ براہ راست دل❤سے ہے۔۔اسی لیے اس پر انسان کا اختیار نہی ہے۔۔خود رسول اللہ ص کو اماں عائشہ رض سے سب سے زیادہ محبت تھی۔یہی وجہ ہے کہ آخری ایام اور با لآ خر
انتقال پر ملال کے وقت آپ ص نہ صرف اماں عائشہ رض کے حجرے مین تھے بلکہ آپ کا سر مبارک اماں عائشہ رض کی گود مین تھا۔۔آپ ص
معصوم تھے اور آپ سے بڑھ کر ازواج مطہرات رض مین عدل وانصاف کون کرسکتا تھا۔۔لیکن جہان تک دل کے جھکاوُ اور محبت کا تعلق ہے وہ اماں عائشہ رض سے زیادہ تھی۔۔اور اس پر اللہ کی طرف سے کوئ قدغن نہ تھی۔۔کیونکہ آپ اختیاری چیز مین عدل وانصاف کے مکلف ہین۔لیکن محبت دل کا معاملہ ہے اورغیر اختیاری ہے
اسی لیے دین کے قبول یا رد کرنے مین بھی کو ئ زبردستی نہی ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین۔۔رحمت ا للعالمین اور صحابہ کی محبت۔شفقت۔رحمت اور حسن اخلاق کی وجہ سے پھیلا۔۔۔
اسی لیے کہتے ہین کہ اگر اللہ پکڑنے پر آجائے تو کوئ زی روح زندہ نہ رہے۔۔مگر یہ کہ اس کی محبت اور رحمت اس کے غیض وغضب پر چھائ ہو ئ ہے۔۔
حضرت عاص رض جب کہ وہ رسول اللہ ص کی بیٹی حضرت زینب رض کو طلاق دے چکے تھے علاحدگی ہوچکی تھی۔کیونکہ بی بی زینب رض مسلمان ہوچکی تھین اور حضرت عاص رض ابھی ایمان نہی لائے تھے۔مگر بی بی زینب سے بہت محبت کرتے تھے۔۔یہان تک کہ جب ان کی محبت حد سے گزر گئی تو وہ رسول اللہ ص کی اجازت سے بی بی زینب رض کے پاس گئے مگر انھین چھونے کی اجازت نہ تھی۔۔۔پھر آپ بھی مسلمان ہوگئے۔اور تقریباً ایک سال ساتھ رہے۔۔اس کے بعد بی بی زینب رض کا انتقال ہوگیا۔انتقال کے بعد آپ بہت بے چین رہتے تھے اور بی بی زینب کے غم مین روتے رہتے تھے۔۔رسول اللہ ص آپ کو تسلی دیتے تھے یہان تک ایک سال مین ہی آپ کا بھی انتقال ہوگیا اور آپ اپنی محبت سے جا ملے۔۔۔
حضرت یعقوب ع کو دیکھیئے کہ حضرت یوسف ع کی محبت مین رو رو کر بینائ ضائع کردی مگر ان کے کرتے اور ان کی خوشبو محسوس کرتے ہی
بینائ واپس آگئی۔۔گو کہ یہ بھی اللہ کا معجزہ تھا مگر کس جزبے کیلیے۔۔محبت۔۔محبت اور صرف محبت۔۔۔
اسی طرح ایک صحابی رض نے رسول اللہ ص سے فرمایا کہ مجھے فلان صحابی سے محبت ہے۔۔تو آپ ص نے پوچھا کہ کیا یہ بات تم نے ان کو بتائ ہے۔۔انہون نے کہا کہ نہی بتائ۔۔۔آپ ص نے فرمایا کہ جاوُ اور جاکر ان کو بتادو۔۔۔کیونکہ محبت تو اظہار چاہتی ہے۔۔ورنہ یہ ایک سوتے بچے کو پیار کرنے کے علاوہ کچھ نہی۔۔۔
اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ ص نے حضرت عمر رض سے پوچھا کہ تمہین مجھ سے کتنی محبت ہے۔۔عمر رض نے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیا کی ہر شےسے زیادہ آپ سے محبت ہے۔۔رسول اللہ ص نے فرمایا۔۔عمر رض جب تک تمہین اپنی جان سے بھی زیادہ مجھ سے محبت نہی ہوتی تمہارا ایمان نامکمل ہے جس پر عمر رض نے فرمایا
یا رسول اللہ ص آج سے آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہین۔۔۔پس معلوم ہوا کہ محبت کے بغیر ایمان بھی مکمل نہی ہوتا۔۔۔۔
محبت ہی ایک ایسا جزبہ ہے جو دلون کو جوڑتا ہے۔۔
وہ ادائے دلبرین ہو کہ نوائے عا شقانہ
جو دلون کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
. . . (جگر مرادآبادی)
عشق تو نیت کی سچائ دیکھتا ہے
دل نہ جھکے تو سجدے ضائع مت کرنا
(۔۔۔۔۔۔۔۔(علی زریون
جو مین سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا۔۔۔
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
(۔۔۔۔۔۔۔(علامہ اقبال