
منسلک چارٹ میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی، کرونا وائرس کے حوالے سے عوام میں ساکھ پر، سروے کے نتائج ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مجھے اس سروے کی لکیروں میں اپنی قوم کا احوال بھی نظر آرہا ہے۔ لہٰذا سوچا کہ کیوں نہ کچھ رنگِ غزل بھی تبصرے میں ملایا جائے۔
انور مسعود صاحب کی ایک غزل کے ذریعے بات کہنی آسان لگ رہی ہے۔
سو ملاحظہ فرمائیے۔ مطلع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
تبصرہ ۔ مشکل وقت میں لوگ رہنما کی طرف دیکھتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کٹھن دنوں میں لوگوں کا اعتماد اور حوصلہ قائم رکھیں۔ پہلے کبھی ایسا ہوتا ہوگا۔ آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر امریکا کی تمام ریاستوں میں کرونا پھیل رہا ہے۔ اس عالم میں ڈونلڈ ٹرمپ روز خطاب کرتے ہیں۔ لیکن ایک سروے میں اکثر امریکیوں نے کہا ہے کہ انہیں صدر کی فراہم کردہ اطلاعات پر اعتماد نہیں ہے۔ صرف امریکا ہی کیوں؟۔ اس سروے کو اگر پاکستان میں کیا جائے تو اعدادوشمار اس سے زیادہ خراب ہوں گے۔ ہمارے لوگ کون سا اپنے حکمرانوں کی باتوں پر یقین کرتے ہیں۔ لوگوں کو صادق اور امین کی برسرِ تختِ اقتدار امید تو ہے، لیکن کوئی صورت نہیں نظر نہیں آتی۔ اچھی زندگی کی تمنا کروڑوں دلوں میں ہے مگر ہر آن یہ دل بجھتے جارہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر بکف میں بھی ہوں شمشیر بکف ہے تو بھی
تو نے کس دن پہ یہ تقریب اٹھا رکھی ہے
تبصرہ ۔ ایک صوبائی حکومت نے، کرونا سے نمٹنے کے لیے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے جبراً کٹوتی منظور کرکے، فوری طور پر ایک ارب ستر کروڑ روپے فنڈ میں دے دئیے ہیں۔ شاہی فرمان کے مطابق گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین کی تنخواہ سے پانچ فیصد اور سترہ تا بیس گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں سے دس فیصد تنخواہ کی کٹوتی ہوگی۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو ویسے ہی پوری نہیں ہوتی ہیں ان کا گھر چلانے کے لیے۔ اب ان میں سے زبردستی وبا روکنے کی کٹوتیاں بھی ہونے لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ برسوں سے مختص ہونے والا اربوں کھربوں کا بجٹ کہاں گیا۔ وہ نظام کدھر گئے، اگر وقتِ ضرورت سرکاری ملازم کو ہی اپنی تنخواہ دے کر یہ خرچا پورا کرنا تھا۔ لیکن کیا کیا جائے۔ جو چاہے ان کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل سلگتا ہے ترے سرد رویے سے مرا
دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے
تبصرہ ۔ عوام کے دلوں میں اس طرزِ حکمرانی پر جو غصہ ہے، وہ جابجا نظر آتا ہے۔ چونکہ حکمرانوں کی بات کا اعتبار نہیں، اس لیے لاک ڈائون کی اپیلوں کو بھی عوام نے سُنی ان سُنی کردیا ہے۔ ہم مشرقی لوگ جب ناراض ہوتے ہیں تو اپنی ناراضی کا اظہار، نظرانداز کرکے کرتے ہیں۔ بقول شاعر ۔۔۔ ہم تو دشمن کو بھی پاکیزہ سزا دیتے ہیں۔ ہاتھ اٹھاتے نہیں نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ حکمرانوں کی سردمہری نے عوام کے دلوں میں آگ لگا رکھی ہے۔ پہلے ہی کیا کم مشکلیں تھیں۔ نااہلی نے ان کے تنکوں سے بنے گھرونوں کو مزید شعلوں میں جھونک دیا ہے۔ ساری دنیا میں عوام ایسے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں، جو اپنی ساکھ اور اعتماد کھوچکے ہیں۔ جمہوریت کا فلسفہ، جمہوری نظام کی خامیوں کی وجہ سے حامی کھورہا ہے۔ اس وقت دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کے لیڈر پر سب لوگ اعتماد کرسکیں۔ کرونا وائرس کے معاملے میں ساکھ کا یہ بحران کھُل کر سامنے آگیا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے درمیان کتنا فاصلہ ہے، اس بحران نے واضح کردیا ہے۔ امریکی سروے تو ایک طرف، خود پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں اب یہی عمومی سوچ ہے۔ اگرچہ حکمرانوں کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ اقتدار ہے اور اندھی طاقت ہے۔ جبکہ عوام کے پاس صرف جانیں ہی باقی بچی ہیں۔ سو وہ چاروناچار لوٹ لی جاتی ہیں۔ اِدھر آ ستمگر ہُنر آزمائیں ۔۔۔ تُو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئنہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
تبصرہ ۔ کبھی آپ نے خود فریبی Self-deception کا مریض دیکھا ہے؟۔ آج کے کسی بھی حاکم کو دیکھ لیں، آپ کو اس میں ایک خودفریبی کا شکار مریض نظر آئے گا۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ خود فریبی کا مریض۔۔۔ خلافِ عقل، منطق و دلیل امیدیں باندھتا ہے۔ ارادے بناتا ہے۔ اس طرح وہ کسی اور کو نہیں، اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔ شاید یہ اس کا توازنِ ذہنی برقرار رکھنے کا حربہ ہو۔ خود فریبی کی کیفیت، خوش اُمیدی سے مختلف ہے۔ خوش امید بھی امیدیں رکھتا ہے اور ارادے باندھتا ہے۔ مگر خود فریب کی امیدیں اور ارادے اسے سراب میں دھکیلتی ہیں۔ کرونا کے بارے میں بھی ہمارے حکمران خوش امیدی میں نہیں بلکہ خود فریبی میں مبتلا ہیں۔ انہیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کا مسئلہ یہی ہے کہ جس طرح بلی کو آئینے میں شیر نظر آتا ہے، ویسے ہی انہیں لگتا ہے کہ اس بار بھی کچھ نہیں ہوگا اور چند ہزار مزید لوگ مرجائیں گے مگر ان کا تخت سلامت رہے گا۔ کیا پتا ۔۔۔ شاید ایسا ہی ہو ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
تبصرہ ۔ مدرسے میں مجنوں کی نظر، ٹکُ طوافِ لیلیٰ کرتی تھی۔ استاد غضب ناک ہوا مگرعشق بضد تھا۔ سو حکم ہوا ہاتھ پھیلائو۔ ساکت ہتھیلی پر کئی بید گرے مگر اثر ندارد۔ استاد حیران تھا۔ لیلیٰ پر نظر گئی تو دم بخود رہ گیا۔ حنائی ہتھیلی پر سلگتی لکیروں کا جال۔ ادھر لگنے والی ہر ضرب، لیلیٰ کی ہتھیلی پر نیل بنا گئی تھی۔ شاید اسی محبت کے لیے قتیل شفائی کہہ گئے ہیں۔ یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے۔ کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے۔ لیکن اب یہ محبت کہاں۔ یہ صرف قصے کہانیوں کی بات ہے۔ اب کسی کو کسی کا یارا نہیں، الفت نہیں، پیار نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اپیل جاری کی تھی کہ عوام تین دن گھروں میں رہیں۔ وزیراعظم نے خصوصی خطاب کیا۔ وزیر اعلیٰ نے بیانات جاری کرائے۔ سوشل میڈیا پر زلفِ پریشاں کے ساتھ دردناک لہجے میں پرفارمنس دی۔ نتیجا خاک نہیں۔ جس مجنوں کو وہ ڈھونڈتے ہیں، اب وہ صحرائوں میں سر پر خاک انڈیل رہا ہے۔ اب یہاں کوئی ان کے سودے کا خریدار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
تبصرہ ۔ شہنشاہِ فارس یزد گرد شہریار کا حکم تھا کہ اس عربی کا احوال لائو جس کا رعب ہر سلطنت پر ہے۔ قاصد مدینہ پہنچا اورعوام سے پوچھا۔ ‘تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟’۔ جواب ملا، بادشاہ تو نہیں، ایک امیر ہے جو ادھر رہتا ہے۔ قاصد وہاں پہنچا تو دیکھا، ایک بوڑھا زمین پر خوابیدہ تھا جس کا عصا سرہانے دھرا تھا اور اس کے پسینے سے زمین تر تھی۔ وہ شخص جس کی ہیبت سے بادشاہتیں لرزاں تھیں، نفسِ مطمئنہ کا پیکر تھا۔ اب وہ دور تو جیسے خواب ہوا۔ اب تو ہوس کے خریدار اقتدار سے یوں چمٹتے ہیں گویا زخم سے جونک۔ کاش کوئی ایسا صاحبِ ظرف بھی ہوتا جو اس شعر کی عملی تفسیر بنتا۔ اب کہاں کسی میں وہ غیرت کہ رعایا کا اعتماد نہ ہو تو تخت چھوڑ دے۔ آج شہر میں کسی سے پوچھ لیں، چاہے شعبے کا ماہر ہو یا راہ گیر۔ کوئی مطمئن نہیں کہ کرونا وائرس کے لیے جو کچھ ہورہا ہے، وہ ٹھیک ہے اور کافی ہے۔ خود حکومت کو پتا ہے کہ یہ سب بہت کم ہے اور بہت دیر سے ہے۔ لیکن تاج اور قبا کو کون چھوڑے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گوہرِ اشک سے خالی نہیں آنکھیں انورؔ
یہی پونجی تو زمانے سے بچا رکھی ہے
تبصرہ ۔ ڈھونڈیں تو معلوم ہوجائے گا۔ خالی آنکھوں میں تہہ کہاں۔ شبِ غم کو سحرنہیں۔ ملک میں ساٹھ فی صد بچے اچھی خوراک کو ترس رہے ہیں۔ ڈھائی کروڑ اسکول نہیں جاتے۔ ہر ماہ دس لاکھ نئے بے روزگار بڑھ رہے ہیں۔ اب میرے لوگوں کے پاس لُٹانے کو بہت آنسو اور خون کی رگیں ہیں، سو وہ جابجا بہا رہے ہیں، کاٹ رہے ہیں۔ دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے ۔ لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں۔ کرونا وائرس گریہ کے کچھ نئے بہانے دے جائے گا۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔
احمد آفتاب