لیو ٹالسٹاۓ کو تو ہم نے تھوڑا بہت شہر میں پہنچ کر جانا، اس سے قبل گاؤں سے تعلق رکھنے کی بدولت بھی کچھ نہ کچھ سمجھنے کا موقع ملتا ہی رہا جس ولائیتی لوگ کا نام دیتے ہیں، ہوتا یوں کہ ملازم شام کو دودھ لے کر آتا جس کو ابالنے کے لے ملازمہ چولہے پر چڑھا دیتی۔ میری والدہ اسے کہتی کھڑے رہنا کہیں دودھ ابال پر ضائع نہ ہو جاۓ، اس کے باوجود دودھ ضائع ہوجاتا، ایک دن والدہ بولی کہ نسرین دودھ پر کھڑا ہونا ہی ضروری نہی، ابلُنے پر چولہے سے اتارنا بھی ضروری ہے، مجھے لگتا ہے اس تنبیہ پر اب ہمیں قومی سطح پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
: لیو ٹالسٹاۓ نے ایک جگہ لکھا ہے،
Time and patience are the biggest warrior,
ہر لمحہ ہم سے مختلف اقدام اور فیصلوں کا متقاضی ہوتا ہے، جن کو اس لمحے نہ لیا جاۓ تو وہ زندگی کا روگ بن جاتے ہیں،قدرت کے یہ اصول لیو ٹالسٹاۓ کے قبل بھی موجود تھے اور آج بھی مؤثر ہیں،لیکن ان سے فائدہ اٹھانے والے زیرک افراد کم ہی ہوتے ہیں، قوموں کے عروج و زوال کا سبب بھی وقت کے ساتھ نہ چلنا ہی رہا ہے۔
کرونا جیسے وبائی مرض کی صورت میں ٹالسٹاۓ کا کہا مزید واضح ہو گیا ہے، ایک طرف چین ہے جس نے غیر مقبول اور سخت فیصلے کۓ اور اس وبا کو شکست دی، دوسری طرف اٹلی ہے جو تمام وسائل اور ہیلتھ سسٹم ہونے کے باوجود کوئی موثر قدم نہ اٹھا سکا اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے،
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری رہنمائی کے لۓ دونوں ماڈلز اپنے نتائج کے ساتھ موجود ہیں،اگر ہم نے بروقت فیصلے نہ لیے تو حالات بے قابو بھی ہو سکتے ہیں ۔فقط کورونا کے شکار ہونے والوں کی تعداد پر نظر رکھنا اور میڈیا پر نشر کرنا اب کا فی نہی رہا، وبا کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے جس کو روکنے کے لیے سخت فیصلے کرنے ہی پڑیں گے۔