
!اے دنیا کے رکھوالو، ٹھیکیدارو
ہر طرف خوف کے بادل چھائے ہیں ۔ سنسانی ویرانی کا راج ہے ۔ ایک نادیدہ ہاتھ نے قفل لگادیے خود ساختہ قید پر مجبور کردیا . پیسہ ہے ! تعلیم ہے ! اختیار ہے ! لیکن کس کام کا ! موت کھلے بندوں دندناتی پھر رہی ہے ۔ راشن ، ادویات ، صابن ٹشوپیپر اور ہینڈ سینیٹائزر کے ذخیرے کرلیے گئے ہیں ۔ پھر بھی زندگی کی ضمانت نہیں ۔
آج ایک نظر نہ آنے والے جراثیم نے ساری دنیا کو خود ساختہ لاک ڈاون پر مجبور کردیا ۔ غیر معینہ مدت تک سب معمولات زندگی روک دیے گئے ۔
ملحدوں اور مرتدوں کی بات نہیں ہورہی ۔ یہاں خدائے واحد کی وحدانیت ماننے والی دنیا کا ذکر ہے۔
تاریخ پر نظر ڈالیے نافرمانوں اور ظالموں پر ہمیشہ عذاب آئے کتنی ہی قومیں نشان عبرت بنیں اور صفحہ ہستی سے نیست ونابود ہوئیں ۔
!عذاب کب آتے ہیں
جب انسان زمین پر اکڑ کر چلنا شروع کردیتا ہے اور جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے۔ اور جب انسان بے لگام ہوجاتا ہے اپنے جیسوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے لگتا ہے ۔. . . . . . . . . . . . . . . . . . .
. . . . . . . . . . عذاب آنا ہی تھا ! وہ جنگلوں کی آگ کی صورت ہو ۔ سونامی کی شکل میں ہو ، ٹڈی دل کے لشکر ہوں طوفانی بارشیں ژالہ باری یا کرونا وائرس بن کر سانس روک دینے پر قادر ہو ۔
. . . . . . . . . . . . . . . یہ اس بے حسی کی سزا ہے جو پوری دنیا امن کے ٹھیکیداروں اقوام متحدہ نے مل کر کشمیر کے لیے اختیار کی ۔ وہ بے بسی جو ان بے کسوں نے سہی وہ دکھ تکلیف جو ا ن پر سے گزری ۔ بھوک بیماری سرد موسم اور ناگفتہ بہ حالات ۔ اپنے پیاروں کی تشدد زندہ میتیں اٹھاتے اپنے صحنوں میں دفن کرتے لاچار کشمیری ۔
کتنے دن مہینے گزرگئے کشمیر میں لاک ڈاون ہوئے کچھ یاد بھی ہے !
دنیا کے ٹھیکے داروں اب بھی وقت ہے! سوچ لو کشمیریوں کو جینے کا حق واپس کردو انہیں آزاد کردو ۔ ازالہ کرکے عذابوں سے چھٹکارا پالو ۔وہاں لاک ڈاون ختم ہوگا تو ہر جگہ چین کی بنسی بج جائے گی دیکھ لینا ۔
کل کس نے دیکھی کون اس وباء سے بچتا ہے اور توبہ کی توفیق سے محروم رہ کر کون کون قصہء پارینہ ہوجائے گا۔!!!!