اگرچہ پرنٹ میڈیا حکومتی پالیسیز،زبوں حال ملکی معیشت کے بعض ایڈورٹائزنگ کی کمی سے بحران کاشکارتوتھا ہی لیکن

روزنامہ نوائے وقت کی صورتحال خاص طورپر سنگین شکل اختیارکرچکی ہے، بڑی وجہ خود ادارہ مالکان کی نتجربہ کاری اورغلط پالیسیز ہین جس کا خمیازہ ادارے کے ملازمین کو بھگتنا پڑرہا ہے ، معاملات معمول کے مطابق ڈاؤن سائزنگ تک ہی محدود رہتےتوکسی حدتک قابل برداشت ہوتے لیکن مینجمنٹ نے بگڑتی صورتحال پرقابوپانے کےلئے سارا زور ملازمین کی کمرتوڑنے پر لگارکھا ہے،
چھانٹی کی جارہی ہے ، جبری ریٹائر کیاجارہا ہے، واجبات ادا نہیں کئے جارہے بلکہ یہ سن کرحیرت زدہ رہ گیا کہ بعض کے واجبات پچاس سے سترلاکھ تک ہیں جو روک لئے گئے ہیں، اکثریت کو تنخواہیں سال کیا ڈیڑھ سال سے ادا نہیں کی گئیں اوروہ مجبوری میں کام کئے جارہے ہیں، نت نئے لولی پاپ دیئے جاتے رہے ، تنگ اکر وہ سڑکوں پر اگئے ،کراچی میں ایک مظاہرہ بھی ہوا ، جرنلسٹ تنظیموں نے حمایت کا یقین دلایاہے کہ انصاف کے حصول کے لئے بھرپور ساتھ دیں گے۔
سمجھ نہیں اتا کہ نوائے وقت کے معاملات پر سپریم کورٹ سوموٹوکیوں نہیں لیتی یا عمران خان گورنمنٹ کے کان پرجوں کیوں نہیں رینگی ، سندھ میں خود پی پی گورنمنٹ ہے ، بلاول لاہور میں ڈیرے جمانے کی بجائے اگر اپنے صوبے کے معاملات کی طرف توجہ دے تو کیا یہ صوبے کے عوام اور خود پی پی کے لئے بہتر نہ ہوگا، پنجاب کی سیاست چھوڑو اور سندھ کے معاملات پر توجہ دو ، یہ پی پی لیڈرشپ کی پہلی زمے داری ہے ۔
نوایے وقت ایک باوقار ادارہ تھا ، اس کی ایک ہسٹری ہے، میرا ذاتی تجربہ صرف جنگ کراچی تک محدود ہے لیکن میرے والدنے کافی عرصہ نوائے وقت کراچی ، ملتان اور لاہور میں گذارا ہے بلکہ ان کی زندگی کی پہلی اخبارکی ملازمت بھی نوائے وقت لاہور سے شروع ہوئی تھی ۔ ان کی زبانی پتہ چلتا تھا کہ ایوب خان اور بھٹو کے دور میں نوائےوقت کتنی جرات سے اپنے وقت کے ڈکٹیٹرزکو للکارتا رہا ،اس کے ادارئے سے حکومتی ایوانوں میں لرزا طاری ہوجاتا تھا لیکن وہ مجید نظامی مرحوم کا دور تھا اور یہ اب رمیزہ نظامی کادور ہے ، فرق صرف شخصیات کا ہے ، رمیزہ نظامی کی نااہلی کے قصے زبان زدعام ہیں ،خود اسے بھی شایداحساس ہوچلا ہے کہ زبردستی صحافت کی گٹھری اٹھائے ہوئےہے لہذا جتنی جلد بوجھ سے جان چھڑاؤ اتنا اچھا ہے ۔ چنانچہ ہر وہ طریقہ اختیارکیا جارہا ہے جس سے ادارہ تو نہ چلے لیکن ملازمین کی پیٹھ پرزور کی لات ضرور پڑے ۔
ایک قابل اعتمادذریعہ نے مجھے فون پر بتایا کہ رمیزہ نوائے وقت فروخت کرنےکےلئے کوئی بزنس پارٹی تلاش کررہی ہے ، جسیے ہی پارٹی ملی تو اپنے پیسے کھرے کرکے امریکا چلی جائے گی ، اگلی پارٹی شاید نوائے وقت جسیے اخبار کو کسی چیتھڑے کی شکل دے کر چلاتی رہے یعنی شام کا سستا چورن اخبار بنادیا جائے ۔ کتنا بڑا المیہ ہوگا کہ نوائے وقت جیسا بڑا اخبار جس نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا ، جس سے ایوب خان اور بھٹو بھی خوف زدہ تھے وہ رمیزہ نظامی کی نااہلی کی وجہ سے زبوں حالی کی اس سٹیج پر کھڑا ہے ۔
صورتحال سنگین ہے ، نوائے وقت کے معاملات اور ملازمین کی دادرسی کےلئے حکومت یا عدالت کو دخل دینا چاہئے تاکہ جو بھی مالی لین دین ہورہے ہیں اس میں ملازمین کے واجبات کی ادائیگی یقینی بنائی جاسکے۔ آخر ان کا کیا قصورہے ؟