
اکیس مارچ 1916 کو پیدا ہونے والے استاد بسم اللہ خان کا نام ان کے والدین نے قمرالدين رکھا تھا، جب ان کے دادا نے نوزائیدہ بچے کو دیکھا تو دعاکے لیے ہاتھ اٹھا کر بس یہی کہا – بسم اللہ. شاید ان کی چھٹی حس نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ان کے گھر میں کوہ نور پیدا ہوا ہے. ان کے والد ان دنوں بھوج پور کے راجا کے دربار میں شہنائی نواز تھے. 3 سال کی عمر میں جب وہ بنارس میں رہائش پذیراپنے ماموں علی بخش ولايت کے گھر گئے تو انہیں وارانسی کے کاشی وشوناتھ مندر میں شہنائی بجاتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کے ماموں ہی ان کے استاد تھے اور ننھے بھانجے کی صورت میں ولايت صاحب کو بھی جیسے ان کا سب سے پیارا شاگرد مل گیا تھا. 1930 سے 1940کے درمیان انہوں نے استاد ولايت کے ساتھ بہت سارےپروگراموں میں ان کی سنگت کی . 14 سال کی عمر میں الہ آباد میں منعقد ہونے والی موسیقی کی کانفرنس میں انہوں نے پہلی بندش پیش کی. اتر پردیش کی لوک موسیقی کی بہت ساری روایات جیسے ٹھمری، چیتی، كجری، ساونی وغیرہ کو انہوں نے ایک نئی شکل میں سامعین کے سامنے رکھا اور ان کے فن کے چرچے ہونے لگے . 1937 کو کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں جب پہلی بار بڑی سطح پر ان کی شهنايي گونجی تو بے شمار لوگ اور موسیقی کے پریمی ان کی استادی کے قائل ہو گئے ۔
انیس سو اڑتیس کو لکھنؤ میں آل انڈیا ریڈیو کی شروعات ہوئی. جہاں سے استاد کا فن با قاعدگی کے ساتھ سامعین تک پہنچنے لگا. 15 اگست1947میں وہ پہلے سازندے تھے جنہوں نے لال قلعہ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور انہیں عقیدت سے سن رہے تھے خود مہاتما گاندھی ، جس کے بعد پنڈت نہرو نے خطاب کیا تھا۔ اس کے بعد سے جانے کتنے ہی تاریخی اجتماعات اور جانے کتنے ہی قومی اور بین الاقوامی پروگراموں میں اس عظیم فنکار نے اپنے حیرت انگیز ہنر سے سننے والوں کو متحیر کیا. نہ صرف انہیں پدم شری، پدما بھوشن اور پدما وبھوشن نے نوازا گیا بلکہ 2001 میں انہیں بھارت رتن بھی دیا گیاجس کے بعد ایوارڈ تو جیسے عمر بھر ان پربرستے ہی رہے. بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے ستياجیت رائے کی فلم “جلساگر” میں اداکاری بھی کی تھی. فلم ” گونج اٹھی شهنائی” کا ایک ایک گیت بھی ان کی شہنائی کے جادو سے بھرا ہوا ہے ۔