Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
بچپن سے لے کر مرنے تک جینے کے طریقے تو ہر کوئی بتاتا ہے۔ پر جیتے جی مرنے کے طریقے ہم آپ کو بتائیں گے۔کیونکہ سیکھنے کا ہی تو نام نام زندگی ہے ہے اس کے لیے تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس دنیا میں آپ کا کوئی بھی نہیں سب “مطلب” کے ہیں اور ویسے بھی موت انسان کو ضرور مار دیتی ہے مگر برے اخلاق والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دلوں میں بھی لفظوں میں بھی اور بددعاوں میں بھی۔ ویسے بھی جو قدرتی موت مرتا ہے اسے جلدی بھلا دیا جاتا ہے۔ انوکھی اور منفرد موت دیر پا اثر رکھتی ہے۔
ویسے اگر آپ گھٹ گھٹ کے مرنا چاہتے ہیں تو شادی کرلیں اور اگر تیزی سے مرنا چاہتے ہیں تو پسند کی شادی کرلیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے سوتے میں اچانک اپنی ٹانگ اپنے میاں کے اوپر رکھ دی۔ تو میاں نے دبی دبی دبی آواز میں بیگم کو جگا کر پوچھا کہ تمہیں میرا گھٹ گھٹ کر مرنا اچھا لگے گا یا ایک دم مرنا۔ محترمہ نے کہا ظاہری بات ہے سرتاج ایک دم۔ بولے “تے فیر دوجی لت وئی میرے تے رکھ۔” تاریخ گواہ ہے اس کے بعد ہمارے دوست اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکے۔ ویسے بھی جس کے پاس ایک ہی بیوی ہو عرب میں اسے غریب کہتے ہیں اور پاکستان میں اس کو شریف کہتے ہیں اور شریف بندے کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ سو دو چار شادیاں کریں اور زندگی میں اپنا نام اور دوستوں میں مقام پیدا کریں۔ ویسے بھی آپ فکر نہ کریں جو کرنا ہوا وہ آپ کی بیویاں ہی کریں گی۔ میری مراد کفن دفن کا انتظام سے نہیں وہ تو یقینا دوست ہی کریں گے۔
بالکل جس طرح آپ کسی کے راستے میں روشنی کرتے ہیں تو آپ کا اپنا راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آ پکے مرنے سے بھی آپ کا چہرہ روشن ہو جائے گا۔ جو آپ تو نہیں دیکھ سکیں گے پر آپ کے کمینے دوست بریانی کھاتے ہوئے ضرور دیکھیں گے۔ تو ایسے دوستوں کے لئے کیا جینا؟ آپ سادگی سے کسی بھی ایسے دوست کے گھر جائی جب دوست گھر پر نہ ہوں اور جب بھابھی باہر نکلیں تو حیرت سے تھوڑا منہ کو کھولیں اور دل بڑا کر کے کہہ دے کہ اگر آپ میری بھابی ہے تو کمبخت میرا دوست کل کس کو ضافت پر ہمارے گھر لایا تھا۔ اس ایک اس کا فائدہ صبح آپ ہم مرینگے ہی مریں گے آپ کا دوست بھی مرے گا ویسے بھی ایک اور ایک گیارہ ہی ہوتے ہیں۔
آپ کو اگر یہ تحریر سمجھ میں نہیں آئی تو آپ کو عقل کی کمی ہے اور عقل ٹھوکر کھانے سے آتی ہے اس لئے کسی کو کہیں کہ آپ کو ‘ٹھڈے’ مارے تاکہ آپ کو عقل آئے. اگر آپ کو اس بات پر شک ہے تو یاد رکھیں شک کا بیج ہنستے مسکراتے گھر کو ویران کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے شک کا بیج ایک تناور درخت بن جائے تو خود کو ٹھڈے ماریں۔ اگر آپ حادثاتی طور پر یہ تحریر پڑھ چکے ہیں تو دوسروں کو زبردستی سنا کر ان کا جینا حرام کریں اس طرح ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوگا اور آپ کو کون برداشت کر رہا ہے یہ بھی معلوم ہوگا۔ ویسے بھی رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔
بچپن سے لے کر مرنے تک جینے کے طریقے تو ہر کوئی بتاتا ہے۔ پر جیتے جی مرنے کے طریقے ہم آپ کو بتائیں گے۔کیونکہ سیکھنے کا ہی تو نام نام زندگی ہے ہے اس کے لیے تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس دنیا میں آپ کا کوئی بھی نہیں سب “مطلب” کے ہیں اور ویسے بھی موت انسان کو ضرور مار دیتی ہے مگر برے اخلاق والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دلوں میں بھی لفظوں میں بھی اور بددعاوں میں بھی۔ ویسے بھی جو قدرتی موت مرتا ہے اسے جلدی بھلا دیا جاتا ہے۔ انوکھی اور منفرد موت دیر پا اثر رکھتی ہے۔
ویسے اگر آپ گھٹ گھٹ کے مرنا چاہتے ہیں تو شادی کرلیں اور اگر تیزی سے مرنا چاہتے ہیں تو پسند کی شادی کرلیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے سوتے میں اچانک اپنی ٹانگ اپنے میاں کے اوپر رکھ دی۔ تو میاں نے دبی دبی دبی آواز میں بیگم کو جگا کر پوچھا کہ تمہیں میرا گھٹ گھٹ کر مرنا اچھا لگے گا یا ایک دم مرنا۔ محترمہ نے کہا ظاہری بات ہے سرتاج ایک دم۔ بولے “تے فیر دوجی لت وئی میرے تے رکھ۔” تاریخ گواہ ہے اس کے بعد ہمارے دوست اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکے۔ ویسے بھی جس کے پاس ایک ہی بیوی ہو عرب میں اسے غریب کہتے ہیں اور پاکستان میں اس کو شریف کہتے ہیں اور شریف بندے کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ سو دو چار شادیاں کریں اور زندگی میں اپنا نام اور دوستوں میں مقام پیدا کریں۔ ویسے بھی آپ فکر نہ کریں جو کرنا ہوا وہ آپ کی بیویاں ہی کریں گی۔ میری مراد کفن دفن کا انتظام سے نہیں وہ تو یقینا دوست ہی کریں گے۔
بالکل جس طرح آپ کسی کے راستے میں روشنی کرتے ہیں تو آپ کا اپنا راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آ پکے مرنے سے بھی آپ کا چہرہ روشن ہو جائے گا۔ جو آپ تو نہیں دیکھ سکیں گے پر آپ کے کمینے دوست بریانی کھاتے ہوئے ضرور دیکھیں گے۔ تو ایسے دوستوں کے لئے کیا جینا؟ آپ سادگی سے کسی بھی ایسے دوست کے گھر جائی جب دوست گھر پر نہ ہوں اور جب بھابھی باہر نکلیں تو حیرت سے تھوڑا منہ کو کھولیں اور دل بڑا کر کے کہہ دے کہ اگر آپ میری بھابی ہے تو کمبخت میرا دوست کل کس کو ضافت پر ہمارے گھر لایا تھا۔ اس ایک اس کا فائدہ صبح آپ ہم مرینگے ہی مریں گے آپ کا دوست بھی مرے گا ویسے بھی ایک اور ایک گیارہ ہی ہوتے ہیں۔
آپ کو اگر یہ تحریر سمجھ میں نہیں آئی تو آپ کو عقل کی کمی ہے اور عقل ٹھوکر کھانے سے آتی ہے اس لئے کسی کو کہیں کہ آپ کو ‘ٹھڈے’ مارے تاکہ آپ کو عقل آئے. اگر آپ کو اس بات پر شک ہے تو یاد رکھیں شک کا بیج ہنستے مسکراتے گھر کو ویران کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے شک کا بیج ایک تناور درخت بن جائے تو خود کو ٹھڈے ماریں۔ اگر آپ حادثاتی طور پر یہ تحریر پڑھ چکے ہیں تو دوسروں کو زبردستی سنا کر ان کا جینا حرام کریں اس طرح ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوگا اور آپ کو کون برداشت کر رہا ہے یہ بھی معلوم ہوگا۔ ویسے بھی رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔
بچپن سے لے کر مرنے تک جینے کے طریقے تو ہر کوئی بتاتا ہے۔ پر جیتے جی مرنے کے طریقے ہم آپ کو بتائیں گے۔کیونکہ سیکھنے کا ہی تو نام نام زندگی ہے ہے اس کے لیے تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس دنیا میں آپ کا کوئی بھی نہیں سب “مطلب” کے ہیں اور ویسے بھی موت انسان کو ضرور مار دیتی ہے مگر برے اخلاق والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دلوں میں بھی لفظوں میں بھی اور بددعاوں میں بھی۔ ویسے بھی جو قدرتی موت مرتا ہے اسے جلدی بھلا دیا جاتا ہے۔ انوکھی اور منفرد موت دیر پا اثر رکھتی ہے۔
ویسے اگر آپ گھٹ گھٹ کے مرنا چاہتے ہیں تو شادی کرلیں اور اگر تیزی سے مرنا چاہتے ہیں تو پسند کی شادی کرلیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے سوتے میں اچانک اپنی ٹانگ اپنے میاں کے اوپر رکھ دی۔ تو میاں نے دبی دبی دبی آواز میں بیگم کو جگا کر پوچھا کہ تمہیں میرا گھٹ گھٹ کر مرنا اچھا لگے گا یا ایک دم مرنا۔ محترمہ نے کہا ظاہری بات ہے سرتاج ایک دم۔ بولے “تے فیر دوجی لت وئی میرے تے رکھ۔” تاریخ گواہ ہے اس کے بعد ہمارے دوست اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکے۔ ویسے بھی جس کے پاس ایک ہی بیوی ہو عرب میں اسے غریب کہتے ہیں اور پاکستان میں اس کو شریف کہتے ہیں اور شریف بندے کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ سو دو چار شادیاں کریں اور زندگی میں اپنا نام اور دوستوں میں مقام پیدا کریں۔ ویسے بھی آپ فکر نہ کریں جو کرنا ہوا وہ آپ کی بیویاں ہی کریں گی۔ میری مراد کفن دفن کا انتظام سے نہیں وہ تو یقینا دوست ہی کریں گے۔
بالکل جس طرح آپ کسی کے راستے میں روشنی کرتے ہیں تو آپ کا اپنا راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آ پکے مرنے سے بھی آپ کا چہرہ روشن ہو جائے گا۔ جو آپ تو نہیں دیکھ سکیں گے پر آپ کے کمینے دوست بریانی کھاتے ہوئے ضرور دیکھیں گے۔ تو ایسے دوستوں کے لئے کیا جینا؟ آپ سادگی سے کسی بھی ایسے دوست کے گھر جائی جب دوست گھر پر نہ ہوں اور جب بھابھی باہر نکلیں تو حیرت سے تھوڑا منہ کو کھولیں اور دل بڑا کر کے کہہ دے کہ اگر آپ میری بھابی ہے تو کمبخت میرا دوست کل کس کو ضافت پر ہمارے گھر لایا تھا۔ اس ایک اس کا فائدہ صبح آپ ہم مرینگے ہی مریں گے آپ کا دوست بھی مرے گا ویسے بھی ایک اور ایک گیارہ ہی ہوتے ہیں۔
آپ کو اگر یہ تحریر سمجھ میں نہیں آئی تو آپ کو عقل کی کمی ہے اور عقل ٹھوکر کھانے سے آتی ہے اس لئے کسی کو کہیں کہ آپ کو ‘ٹھڈے’ مارے تاکہ آپ کو عقل آئے. اگر آپ کو اس بات پر شک ہے تو یاد رکھیں شک کا بیج ہنستے مسکراتے گھر کو ویران کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے شک کا بیج ایک تناور درخت بن جائے تو خود کو ٹھڈے ماریں۔ اگر آپ حادثاتی طور پر یہ تحریر پڑھ چکے ہیں تو دوسروں کو زبردستی سنا کر ان کا جینا حرام کریں اس طرح ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوگا اور آپ کو کون برداشت کر رہا ہے یہ بھی معلوم ہوگا۔ ویسے بھی رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔
بچپن سے لے کر مرنے تک جینے کے طریقے تو ہر کوئی بتاتا ہے۔ پر جیتے جی مرنے کے طریقے ہم آپ کو بتائیں گے۔کیونکہ سیکھنے کا ہی تو نام نام زندگی ہے ہے اس کے لیے تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس دنیا میں آپ کا کوئی بھی نہیں سب “مطلب” کے ہیں اور ویسے بھی موت انسان کو ضرور مار دیتی ہے مگر برے اخلاق والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں دلوں میں بھی لفظوں میں بھی اور بددعاوں میں بھی۔ ویسے بھی جو قدرتی موت مرتا ہے اسے جلدی بھلا دیا جاتا ہے۔ انوکھی اور منفرد موت دیر پا اثر رکھتی ہے۔
ویسے اگر آپ گھٹ گھٹ کے مرنا چاہتے ہیں تو شادی کرلیں اور اگر تیزی سے مرنا چاہتے ہیں تو پسند کی شادی کرلیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم نے سوتے میں اچانک اپنی ٹانگ اپنے میاں کے اوپر رکھ دی۔ تو میاں نے دبی دبی دبی آواز میں بیگم کو جگا کر پوچھا کہ تمہیں میرا گھٹ گھٹ کر مرنا اچھا لگے گا یا ایک دم مرنا۔ محترمہ نے کہا ظاہری بات ہے سرتاج ایک دم۔ بولے “تے فیر دوجی لت وئی میرے تے رکھ۔” تاریخ گواہ ہے اس کے بعد ہمارے دوست اپنے حواس برقرار نہ رکھ سکے۔ ویسے بھی جس کے پاس ایک ہی بیوی ہو عرب میں اسے غریب کہتے ہیں اور پاکستان میں اس کو شریف کہتے ہیں اور شریف بندے کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ سو دو چار شادیاں کریں اور زندگی میں اپنا نام اور دوستوں میں مقام پیدا کریں۔ ویسے بھی آپ فکر نہ کریں جو کرنا ہوا وہ آپ کی بیویاں ہی کریں گی۔ میری مراد کفن دفن کا انتظام سے نہیں وہ تو یقینا دوست ہی کریں گے۔
بالکل جس طرح آپ کسی کے راستے میں روشنی کرتے ہیں تو آپ کا اپنا راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آ پکے مرنے سے بھی آپ کا چہرہ روشن ہو جائے گا۔ جو آپ تو نہیں دیکھ سکیں گے پر آپ کے کمینے دوست بریانی کھاتے ہوئے ضرور دیکھیں گے۔ تو ایسے دوستوں کے لئے کیا جینا؟ آپ سادگی سے کسی بھی ایسے دوست کے گھر جائی جب دوست گھر پر نہ ہوں اور جب بھابھی باہر نکلیں تو حیرت سے تھوڑا منہ کو کھولیں اور دل بڑا کر کے کہہ دے کہ اگر آپ میری بھابی ہے تو کمبخت میرا دوست کل کس کو ضافت پر ہمارے گھر لایا تھا۔ اس ایک اس کا فائدہ صبح آپ ہم مرینگے ہی مریں گے آپ کا دوست بھی مرے گا ویسے بھی ایک اور ایک گیارہ ہی ہوتے ہیں۔
آپ کو اگر یہ تحریر سمجھ میں نہیں آئی تو آپ کو عقل کی کمی ہے اور عقل ٹھوکر کھانے سے آتی ہے اس لئے کسی کو کہیں کہ آپ کو ‘ٹھڈے’ مارے تاکہ آپ کو عقل آئے. اگر آپ کو اس بات پر شک ہے تو یاد رکھیں شک کا بیج ہنستے مسکراتے گھر کو ویران کر دیتا ہے۔ اس سے پہلے شک کا بیج ایک تناور درخت بن جائے تو خود کو ٹھڈے ماریں۔ اگر آپ حادثاتی طور پر یہ تحریر پڑھ چکے ہیں تو دوسروں کو زبردستی سنا کر ان کا جینا حرام کریں اس طرح ان میں برداشت کا مادہ پیدا ہوگا اور آپ کو کون برداشت کر رہا ہے یہ بھی معلوم ہوگا۔ ویسے بھی رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں ہے۔
______________
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔