پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد اب 300 کے قریب تک جا پہنچی ہے اور دو افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔یہ دونوں اموات صوبہ خیبر پختون خوا میں ہوئی ہیں۔
بلوچستان میں تافتان کی سرحد پر تافتان کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے اور ڈر محسوس کیا جارہا ہے کہ کہیں یہ جگہ کسی بڑے المیے کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں بنائے گئے قرنطینہ کی صورت حال بھی اچھی نہیں بتائی جاتی۔ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس طرح کے قرنطینہ میں دست یاب سہولتوں کی کمی اور غیر پیشہ ورانہ انداز کار پربرہمی کا اظہار کیا ہے۔
ملک میں اس وبا کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کی بنیادی وجہ یہی سامنے آئی ہے کہ بیرون ملک سے لوگ کسی قرنطینہ سے گزرے بغیر معاشرے میں گھل مل گئے ۔بعض جگہوں سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ لوگ قرنطینہ یا اسپتالوں سے کسی علاج کے بغیر فرار ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے ۔یہ صورت حآل بھی پریشان کن ہے۔
اس طرح کی صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ حکومت عوام کی صحت اور جانوں کے تحفظ کے لیے کوئی وقت ضائع کیے بغیر وہ تمام سخت اقدامات کر گزرے جنھیں اختیار کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے تجربے کے نتیجے میں اس وبا سے محفوظ رہنے کا اب تک جو مؤثر طریقہ سامنے آیا ہے،وہ لاک ڈاؤن ہے ۔ پاکستان کی مخصوص اقتصادی صورت حال کی وجہ سے حکومت کا کہنا ہے کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کی صورت حال میں اس مؤقف میں اپنی جگہ وزن موجود ہے لیکن وہ اقدامات جو وقت گزرنے کے بعد کرنے ہیں ،وہی اقدامات اگر کسی بڑے نقصان سے پہلے کر لیے جائیں تو وہی مناسب ہوں گے۔ اس لیے حکومت وقت ضائع کرنے کے بجائے وہ تمام سخت قدم اٹھالے جنھیں اٹھانے سے وہ اس وقت جھجک رہی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد پچھتانے والے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔