Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نواں کوٹ کا مقبرہ
لاہور میں ملتان روڈ پر مغل عہد کی یہ عمارت موجود ہے, جس کو زیب النساء سے منسوب کیا جاتا ہے. زیب النساء اورنگ زیب کی صاحبزادی ہیں. آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا. اس کے علاوہ فقہ, اصول فقہ, علم حدیث, فلسفہ, ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی. آپ کو کتب سے بہت دلچسپی تھی. بلکہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے کتب خانے پر علماء رشک کرتے تھے. آپ نے تفسیر کبیر کا فارسی ترجمہ بھی کروایا. آپ سے کچھ کتب بھی منسوب ہیں. جن میں زیب المنشات اور دیوان مخفی* کافی مقبول ہیں.
مقبرے پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے زیب النساء کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے. مگر زیب النساء کے مقبرے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے. نور احمد چشتی نے اس مقبرے کو زیب النساء کا جائے مدفن بتایا ہے. کہنیالال, کرنل بھولا ناتھ و سید لطیف نے چشتی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے اس کو مقبرہ زیب النساء تحریر کیا. دیوان مخفی (انگریزی) طبع ١۹١٣ء لندن کے ابتدائیے میں جے سی ڈنکن ویسٹ بروک نے زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. حکیم مظفر حسین نے سوانح نواب زیب النساء بیگم طبع ١۹١١ء میں زیب النساء کے مقبرے کے متعلق تحریر کیا ہے” اورنگ زیب دکن کی فتوحات میں مصروف تھا, (کہ)
سید لطیف کی کتاب میں شامل مقبرے کا خاکہ
مقام دہلی شہزادی کا انتقال ہوا….سید امجد خان کے نام احکام جاری کئے….وہ مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں. شہزادی کا تابوت لاہور لایا گیا….شہزادی کی نعش حسب وصیت لاہور میں نئے کوٹ کے قریب اس باغ (و مقبرہ) میں دفن ہوئی. جو اس نے اپنی حین حیات میں خود ہی بنوایا تھا.” یہی روایت سیماب اکبر آبادی نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۰ء ص ٤٦ اور مولوی عاشق حسین نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤٧ پر بحوالہ حکیم مظفر حسین درج کی. منشی محمد خلیق و ممتاز بیگم نے بھی حیات زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤١ پر یہ واقعہ تحریر کیا. مگر حیرت ہے کہ اورنگ زیب زیب النساء کی وصیت کے مطابق اُس کی نعش لاہور بھجوا رہا ہے. اِس مقبرے میں دفن کرنے کے لیے جو زیب النساء نے خود تعمیر کروایا تھا اور ساتھ ہی اسکا مقبرہ بنانے کا حکم بھی دے رہا ہے. شیح نوید اسلم نے پاکستان کے آثار قدیمہ ص ۲٧١ اور ایس ایم ناز نے لاہور نامہ ص ١٧٧ پر زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. محمد دین فوق نے روایات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے. فوق صاحب اپنی کتاب ” لاہور عہد مغلیہ” لکھتے ہیں “(زیب النساء نے) لاہور میں ایک عالیشان باغ تعمیر کروایا.جو اب تک چُوبرجی کے نام سے راجہ پونچھ کی موجودہ کوٹھی کے متصل نواں کوٹ کی طرف موجود ہے. بیگم نے اپنا مقبرہ بھی لاہور ہی میں اس باغ کے متصل تعمیر کرایا تھا, اور اس کے گرد عظیم الشان چار دیواری کے اندر ایک وسیع باغ لگوایا تھا. لیکن دہلی کے خمیر نے شاہزادی کو لاہور میں دفن نہ ہونے دیا! .” لیکن چوبرجی کا بھی زیب النساء سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے خاکسار کا مضمون بعنوان “چوبرجی”. خیر زیب النساء کا لاہور سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں . چشتی, کہنیالال, لطیف, کرنل بھولا ناتھ و دیگر کئی مصنفین نے شہزادی کے لاہور میں آمد و رہنے سے متعلق کئی جھوٹے قصے بلا تصدیق بیان کر دیے ہیں. انہی میں سے ایک معروف کہانی شالامار باغ کی ہے. جس کے مطابق شہزادی کا ایک قطعہ بھی بیان کیا جاتا ہے. اس کے متعلق انجم طاہرہ صاحبہ نے تحقیق کی ہے. ان کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ قطعہ خواجہ محمد کشمی صاحب کا ہے.
مستند کتب میں زیب النساء کے مقبرے کا ذکر دہلی میں ملتا ہے. وقائع نگار عالمگیر محمد ساقی مستعد خاں نے مآثر عالمگیری میں تین جگہ زیب النساء کا تذکرہ کیا ہے اور زیب النساء کی وفات کے متعلق تحریر کیا ہے “نواب تقدس مآب زیب النساء بیگم نے اس دارفانی سے عالم جاودائی کو رحلت فرمائی. اس پر آپ بہت افسردہ ہوئے. لیکن حضرت نے صبر فرمایا اور سید امجد خان, شیخ عطاءاللہ اور حافظ خان کے نام خیرات و صدقات جاری کرنے اور مرحومہ کا روضہ تعمیر کرانے کے احکام جاری فرماے ملکہ مرحرمہ صاجبتہ الزمانی کے باغ سی ہزاری میں پیوند خاک کی گئیں….حضرت زیب النساء بیگم نے جہاں پناہ کی حیات میں ٤٦ جلوس عالم گیری مطابق ١١١٣ھ میں وفات پائی”. مترجم مآثر عالمگیری طبع ١۹٦۲ء ص ۲۲٤, ۲٥۹, ٤۲۲, ٤٧۹. مولف تاریخ محمدی زیب النساء کی وفات اور تدفین دہلی لکھتا ہے.(بحوالہ کلب علی خان فائق از حاشیہ تاریخ لاہور ص ٣۲۰ طبع ١۹٧٧ء)
مولوی بشیر احمد دہلوی واقعات دارالحکومت‘ دہلی میں لکھتے ہیں”دلی شہر کے کابلی دروازے کے باہر نواب زیب النساء بیگم,عالم گیر بادشاہ کی بڑی صاحبزادی, کا مقبرہ تھا جن کا انتقال ١١١٣ھ (١٧۰۲ء)میں ہوا۔ یہ مقبرہ اور مسجد عالم گیر کے عہد میں بنی تھی جو ریل کی سڑک میں آنے کی وجہ سے مسمار ہوگیا. طبع ١۹١۹ء ج ۲ ص ٤٧٤. سر سید احمد خان نے آثار الصنادید میں تحریر کیا ہے” شہر شاہجہاں آباد کے کابلی دروازے کے باہر یہ مقبرہ ہے, نواب زیب النساء بیگم بنت عالمگیر کا.” مرتبہ خلیق انجم طبع ١۹۹۰ء ص ٣٥٣. نقوش لاہور نمبر میں بھی بحوالہ سیر المنازل, مسٹر بیل اور پنجاب نوٹس اینڈ کویریز ثابت کیا گیا ہے کہ مقبرہ دہلی میں ہے. دیوان ذوق مرتبہ مولانا محمد حسین آزاد میں مولانا کا یہ بیان درج ہے “شہر کے اندر کابلی دروازے کے پاس ہی استاد مرحوم رہتے تھے. باہر ایک باغ بادشاہی تیس ہزاری باغ مشہور تھا. زیب النساء بیگم خواہر عالمگیر کی قبر بھی تھی.” نیچے حاشیے میں مولانا رقمطراز ہیں “اب تیس ہزاری باغ صاف ہوگیا. وہاں ریل چلتی ہے. زیب النساء کی قبر کا نام ونشان نہیں رہا.” طبع ١۹٣٤ ص ٥٤, ٥٥.
انتظام اللہ شہابی سوانح زیب النساء میں لکھتے ہیں”١۹۲٥ء کی موٹروں کی نمائش اس میدان میں ہوئی تو نیچے اونچی جگہ جو صاف ہورہی تھی قبر کُھل گئی. زنانی نعش کا ڈھانچہ نظر پڑا اسی وقت قبر درست کرادی گئی ہے.” طبع ١۹۲۹ء ص ٣۹. سر جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب “سٹڈیز ان اورنگ زیب ریجن” میں زیب النساء سے متعلق بازاری روایات کا رد کیا اور مضمون کے آخر میں واضح طور پر لکھا “زیب النساء کے جائے مدفن کے متعلق جو نئی کہانی سنائی جاتی ہے کہ وہ نواں کوٹ میں دفن ہے وہ قطعی درست نہیں.” طبع ١۹٣٣ء ص ١٣۰ تا ١٤۰. منی لال اپنی کتاب اورنگ زیب میں لکھتے ہیں”زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں کابلی دروازہ کے باہر ہے. یہ مقبرہ ١۸٥٧ ءکی جنگ میں فرنگیوں کے مخالفوں کا مرکز بن گیا. برطانوی حکمرانوں نے مقبرے کا ماربل وغیرہ اکبر کے مقبرے پر بھجوا دیا.” طبع ١۹۲٣ء ص ٦١. علامہ شبلی نعمانی نے زیب النساء پر ایک مضمون تحریر کیا جس میں اس کہانی کا رد کرنا مقصود تھا جو ہمارے مورخین لاہور بھی نہیات ذوق و شوق سے بیان کرتے ہیں. اسی مضمون میں علامہ زیب النساء کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں “زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوگئی. زیب النساء نے ١١١٣ھ میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں سال تھا دلی میں انتقال کیا. ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے.” معروف ماہر فن تعمیر رضوان عظیم نے اپنی کتاب لاہور تاریخ و تعمیر میں نواں کوٹ میں موجود مقبرے کے متعلق لکھا ہے “اس کی شکل و صورت شاہ جہانی عہد کی عمارت سے ملتی ہے. مغل خاندان میں پردہ نشین خواتین کی قبر تہ خانہ میں بناتے تھے اور خالی تعویذ اوپر کے فرش پر ہوتا تھا. لیکن زیر بحث مقبرہ میں نہ تہ خانہ ہے اور نی اس پر تختی کا نشان ہے. چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی مرد کی ہے.” یہی نکتہ رسالہ تہذیب الاخلاق میں محمد اسلم نے بیان کیا اور جناب برق دہلوی کی ایک نظم بھی موجود ہے. (جولائی ١۹۹۸ ص ٤٥). ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے “اماکن لاہور” ,مائیکل برانڈ اور تانیا قریشی و خان نصیر حسین یوسفی نے اپنے اپنے مضامین اور سوما مکھرجی نے اپنی کتاب “رائل لیڈیز اینڈ دَیر کانٹریبیوشن” میں
زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں بتایا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ نواں کوٹ میں موجود یہ مقبرہ اگر زیب النساء کا نہیں تو کس کا ہے. اس ضمن میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور مولانا عبداللہ قریشی کا خیال ہے کہ یہ مقبرہ عہد شاہ جہانی کے امیر افضل خان علامی کا ہے. افضل خان علامی کے تفصیلی حالات مآثر الامراء میں درج ہیں. افضل خان انکا خطاب تھا. اصل نام ملا شکر اللہ شیرازی ہے. افضل خان شہجہان کے شہزادگی کے زمانے کے ساتھی ہیں. افضل خان نے کئی مرتبہ شہزادے شہجہان کا نقطہ نظر جہانگیر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جس کا تذکرہ توزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے. بلکہ ایک دفعہ شہزادے کے پیغام کا غصہ جہانگیر نے افضل خان پر یوں نکالا کہ اسکو کچھ عرصہ کے لیے خانساماں بنادیا. جب شہجہان بادشاہ بنا تو افضل خان کو بہت عروج ملا. افضل خان کی لاہور میں شاندار حویلی بھی تھی. اس بات کی تائید شاہ جہاں نامہ میں درج ایک واقعہ سے بھی ہوجاتی ہے جو کہ کچھ یوں ہے “۲۸ جنوری ١٦٣٥ء حضرت نے علامی افضل خان کے مکان پر قدم رنجہ فرمایا. حضرت کے فیض قدم سے یہ عمارت جو حال ہی میں تیار ہوئی تھی, سعادت و برکت کا مرکز بن گئی.” “افضل منزل” کے متعلق صمصام الدولہ لکھتے ہیں “بادشاہ کی قیام گاہ سے اس کے مکان تک کہ جو پچیس جریب فاصلہ تھا, مختلف قسم کے ریشمی کپڑے بچھاے گئے.”
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ “افضل منزل” بھی نوان کوٹ میں تھی اور یہ مقبرہ بھی افضل خان علامی ہی کا ہے. افضل خان کی وفات تو لاہور ہی میں ہوئی تھی مگر اس کی تدفین کے متعلق مآثر الامراء میں درج ہے “اس کا مقبرہ دریاے جمنا کے کنارے اکبر آباد میں واقع ہے.” آگرہ کی تاریخ لکھنے والے بیشتر مصنفین نے آگرہ میں موجود “چینی کا روضہ” نامی مقبرے کو افضل خان علامی ہی کی آخری آرام گاہ بتایا ہے. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے کافی بحث کی ہے کہ “چینی کا روضہ” افضل خان کا مقبرہ نہیں ہے بلکہ اسکا مقبرہ لاہور میں ہے. خان نصیر حسین یوسفی صاحب نے بھی رسالہ “شباب اردو اگست ١۹٣٦ء” میں اپنے مضمون میں بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ مقبرہ افضل خان کا ہوسکتا ہے. مگر ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کے مطابق زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ, افضل خان علامی کی بجائے میا بائی کا ہے, جس کا نام چوبرجی پر درج ہے اور انکے مطابق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ کسی عورت کا مقبرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی مغل خواتین کے قبریں, زمین دوز نہیں بنائی گئیں. ڈاکٹر انجم رحمانی مزید کہتے ہیں کہ میا بائی کا لقب “فخر النساء” تھا اور لوگوں کو آخری لفظ “نساء” یاد رہا اور یوں میا بائی کا یہ مقبرہ زیب النساء بنت اورنگ زیب بادشاہ سے منسوب ہوگیا. نواں کوٹ کی تاریخی عمارات پر زرنین امتیاز کیفی صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے. ان کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ مقبرہ میابائی کا ہے. لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی خاص شواہد فراہم نہیں کیے. مولوی نور احمد چشتی کہتے ہیں “کہ غرب رویہ اس (چوبرجی) کے مقبرہ میا بائی کا تھا مگر وہ دور سکھاں میں مسمار ہوگیا اور بعض کہتے ہیں کہ میا بائی کا مقبرہ وہاں تھا کہ جہاں اب کوئی کوٹھی سر جان لارنس صاحب کی ہے. ” سر جان لارنس کی کوٹھی کا تذکرہ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے کیا ہے مگر وہاں کوٹھی بنے سے قبل یا بننے کے بعد کسی مغل مقبرے یا اسکے آثار کا ذکر نہیں کیا. قاضی ایم اعظم صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ میا بائی کا ہے. مگر راقم نے حال ہی میں ان سے ملاقات میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی, جس میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال بھٹہ صاحب کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ میا بائی کا نہیں, انکے مطابق میا بائی کے مقبرے کے آثار نواں کوٹ میں محکمہ انڈسٹریز کے دفتر میں موجود تھے جو انہوں نے کئی سال قبل دیکھے تھے, اب شاید یہ آثار بھی موجود نہیں. دربار اکبری میں مولانا محمد حسین آزاد صاحب نے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کے حالات میں لکھا ہے “حاجی عبدالکریم باپ کے بعد لاہور آیا اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری کیا. آخر ١۰٤٥ھ میں لاہور میں نویں کوٹ کے پاس دفن ہوا.” اب اس مقبرے کا کوئی نام و نشاں نہیں ملتا. مقامی لوگوں سے کافی پوچھا مگر کوئی خاص معلومات نہیں ملی. البتہ زیب النساء سے منسوب مقبرے کے دوسری طرف انکے استاد کا مقبرہ بتایا جاتا ہے. بعض ادھر حاجی عبدالکریم کی قبر بتاتے ہیں اور بعض نے زیب النساء سے منسوب اس مقبرے کو ہی حاجی صاحب کا مقبرہ کہا.
متضاد روایات کے باعث فی الوقت حتمی بات نہیں کی جاسکتی. ماضی میں اس مقبرے کے ساتھ بے حد برا سلوک ہوا. یہاں کسی زمانے مرغی خانہ رہا. شاید صاحب مقبرہ کے متعلق اس مقبرے میں کبھی کچھ موجود ہو مگر عدم توجہ کے باعث اب ایسا کچھ موجود نہیں. حال ہی میں عدالت کے حکم پر اورنج ٹرین کے باعث عمارت کو لاحق خطرے کی وجہ سے اس مقبرے کی قسمت جاگی اور اسکی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا. اس کا ٹینڈر ۲١ مئی ۲۰١۸ء کو وصول کیا گیا. یوں معلوم ہوتا ہے کہ بوسیدہ جسم پر نئے کپڑے ڈالے گے ہیں. خیر اچھا ہے کہ عمارت بحال ہوگئی لیکن اس سے بھی اہم ہے کہ یہ معلوم کیا جائے ,اس مقبرے میں کون آسودہ خاک ہے.
زیب النسا کی شاعری
*زیادہ تر محققین دیوان مخفی کو زیب النساء کا کلام نہیں مانتے البتہ شیخ محمد اکرم نے اپنی کتاب “رود کوثر” میں زیب النساء کے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندرانی اور زیب النساء کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے. طاہرہ صاحبہ نے اپنے مضمون میں شیخ احمد علی ہاشمی سندیلوی صاحب کا ذکر کیا ہے. وہ اپنی کتاب “تذکرہ محزن الغرائب” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں “عصمت قباب شہزادی زیب النساء محی الدین اورنگ زیب کی بڑی صاحب زادی اور صاحب علم و فضل تھیں اور شعر و انشاء میں قدرت کاملہ رکھتی تھیں. میں نے ان کی تالیف “زیب المنشآت” کی زیارت کی ہے, ان کا دیوان کہیں نظر نہیں آیا لیکن ایک تذکرہ میں ان کے اشعار کا انتخاب دیکھا. جس کے صحیح ہونے پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا. سبب یہ ہے کہ صاحب تذکرہ نے اساتذہ کے اکثر اشعار شہزادی زیب النساء کے نام لکھ دیے ہیں.”
نواں کوٹ کا مقبرہ
لاہور میں ملتان روڈ پر مغل عہد کی یہ عمارت موجود ہے, جس کو زیب النساء سے منسوب کیا جاتا ہے. زیب النساء اورنگ زیب کی صاحبزادی ہیں. آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا. اس کے علاوہ فقہ, اصول فقہ, علم حدیث, فلسفہ, ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی. آپ کو کتب سے بہت دلچسپی تھی. بلکہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے کتب خانے پر علماء رشک کرتے تھے. آپ نے تفسیر کبیر کا فارسی ترجمہ بھی کروایا. آپ سے کچھ کتب بھی منسوب ہیں. جن میں زیب المنشات اور دیوان مخفی* کافی مقبول ہیں.
مقبرے پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے زیب النساء کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے. مگر زیب النساء کے مقبرے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے. نور احمد چشتی نے اس مقبرے کو زیب النساء کا جائے مدفن بتایا ہے. کہنیالال, کرنل بھولا ناتھ و سید لطیف نے چشتی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے اس کو مقبرہ زیب النساء تحریر کیا. دیوان مخفی (انگریزی) طبع ١۹١٣ء لندن کے ابتدائیے میں جے سی ڈنکن ویسٹ بروک نے زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. حکیم مظفر حسین نے سوانح نواب زیب النساء بیگم طبع ١۹١١ء میں زیب النساء کے مقبرے کے متعلق تحریر کیا ہے” اورنگ زیب دکن کی فتوحات میں مصروف تھا, (کہ)
سید لطیف کی کتاب میں شامل مقبرے کا خاکہ
مقام دہلی شہزادی کا انتقال ہوا….سید امجد خان کے نام احکام جاری کئے….وہ مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں. شہزادی کا تابوت لاہور لایا گیا….شہزادی کی نعش حسب وصیت لاہور میں نئے کوٹ کے قریب اس باغ (و مقبرہ) میں دفن ہوئی. جو اس نے اپنی حین حیات میں خود ہی بنوایا تھا.” یہی روایت سیماب اکبر آبادی نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۰ء ص ٤٦ اور مولوی عاشق حسین نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤٧ پر بحوالہ حکیم مظفر حسین درج کی. منشی محمد خلیق و ممتاز بیگم نے بھی حیات زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤١ پر یہ واقعہ تحریر کیا. مگر حیرت ہے کہ اورنگ زیب زیب النساء کی وصیت کے مطابق اُس کی نعش لاہور بھجوا رہا ہے. اِس مقبرے میں دفن کرنے کے لیے جو زیب النساء نے خود تعمیر کروایا تھا اور ساتھ ہی اسکا مقبرہ بنانے کا حکم بھی دے رہا ہے. شیح نوید اسلم نے پاکستان کے آثار قدیمہ ص ۲٧١ اور ایس ایم ناز نے لاہور نامہ ص ١٧٧ پر زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. محمد دین فوق نے روایات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے. فوق صاحب اپنی کتاب ” لاہور عہد مغلیہ” لکھتے ہیں “(زیب النساء نے) لاہور میں ایک عالیشان باغ تعمیر کروایا.جو اب تک چُوبرجی کے نام سے راجہ پونچھ کی موجودہ کوٹھی کے متصل نواں کوٹ کی طرف موجود ہے. بیگم نے اپنا مقبرہ بھی لاہور ہی میں اس باغ کے متصل تعمیر کرایا تھا, اور اس کے گرد عظیم الشان چار دیواری کے اندر ایک وسیع باغ لگوایا تھا. لیکن دہلی کے خمیر نے شاہزادی کو لاہور میں دفن نہ ہونے دیا! .” لیکن چوبرجی کا بھی زیب النساء سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے خاکسار کا مضمون بعنوان “چوبرجی”. خیر زیب النساء کا لاہور سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں . چشتی, کہنیالال, لطیف, کرنل بھولا ناتھ و دیگر کئی مصنفین نے شہزادی کے لاہور میں آمد و رہنے سے متعلق کئی جھوٹے قصے بلا تصدیق بیان کر دیے ہیں. انہی میں سے ایک معروف کہانی شالامار باغ کی ہے. جس کے مطابق شہزادی کا ایک قطعہ بھی بیان کیا جاتا ہے. اس کے متعلق انجم طاہرہ صاحبہ نے تحقیق کی ہے. ان کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ قطعہ خواجہ محمد کشمی صاحب کا ہے.
مستند کتب میں زیب النساء کے مقبرے کا ذکر دہلی میں ملتا ہے. وقائع نگار عالمگیر محمد ساقی مستعد خاں نے مآثر عالمگیری میں تین جگہ زیب النساء کا تذکرہ کیا ہے اور زیب النساء کی وفات کے متعلق تحریر کیا ہے “نواب تقدس مآب زیب النساء بیگم نے اس دارفانی سے عالم جاودائی کو رحلت فرمائی. اس پر آپ بہت افسردہ ہوئے. لیکن حضرت نے صبر فرمایا اور سید امجد خان, شیخ عطاءاللہ اور حافظ خان کے نام خیرات و صدقات جاری کرنے اور مرحومہ کا روضہ تعمیر کرانے کے احکام جاری فرماے ملکہ مرحرمہ صاجبتہ الزمانی کے باغ سی ہزاری میں پیوند خاک کی گئیں….حضرت زیب النساء بیگم نے جہاں پناہ کی حیات میں ٤٦ جلوس عالم گیری مطابق ١١١٣ھ میں وفات پائی”. مترجم مآثر عالمگیری طبع ١۹٦۲ء ص ۲۲٤, ۲٥۹, ٤۲۲, ٤٧۹. مولف تاریخ محمدی زیب النساء کی وفات اور تدفین دہلی لکھتا ہے.(بحوالہ کلب علی خان فائق از حاشیہ تاریخ لاہور ص ٣۲۰ طبع ١۹٧٧ء)
مولوی بشیر احمد دہلوی واقعات دارالحکومت‘ دہلی میں لکھتے ہیں”دلی شہر کے کابلی دروازے کے باہر نواب زیب النساء بیگم,عالم گیر بادشاہ کی بڑی صاحبزادی, کا مقبرہ تھا جن کا انتقال ١١١٣ھ (١٧۰۲ء)میں ہوا۔ یہ مقبرہ اور مسجد عالم گیر کے عہد میں بنی تھی جو ریل کی سڑک میں آنے کی وجہ سے مسمار ہوگیا. طبع ١۹١۹ء ج ۲ ص ٤٧٤. سر سید احمد خان نے آثار الصنادید میں تحریر کیا ہے” شہر شاہجہاں آباد کے کابلی دروازے کے باہر یہ مقبرہ ہے, نواب زیب النساء بیگم بنت عالمگیر کا.” مرتبہ خلیق انجم طبع ١۹۹۰ء ص ٣٥٣. نقوش لاہور نمبر میں بھی بحوالہ سیر المنازل, مسٹر بیل اور پنجاب نوٹس اینڈ کویریز ثابت کیا گیا ہے کہ مقبرہ دہلی میں ہے. دیوان ذوق مرتبہ مولانا محمد حسین آزاد میں مولانا کا یہ بیان درج ہے “شہر کے اندر کابلی دروازے کے پاس ہی استاد مرحوم رہتے تھے. باہر ایک باغ بادشاہی تیس ہزاری باغ مشہور تھا. زیب النساء بیگم خواہر عالمگیر کی قبر بھی تھی.” نیچے حاشیے میں مولانا رقمطراز ہیں “اب تیس ہزاری باغ صاف ہوگیا. وہاں ریل چلتی ہے. زیب النساء کی قبر کا نام ونشان نہیں رہا.” طبع ١۹٣٤ ص ٥٤, ٥٥.
انتظام اللہ شہابی سوانح زیب النساء میں لکھتے ہیں”١۹۲٥ء کی موٹروں کی نمائش اس میدان میں ہوئی تو نیچے اونچی جگہ جو صاف ہورہی تھی قبر کُھل گئی. زنانی نعش کا ڈھانچہ نظر پڑا اسی وقت قبر درست کرادی گئی ہے.” طبع ١۹۲۹ء ص ٣۹. سر جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب “سٹڈیز ان اورنگ زیب ریجن” میں زیب النساء سے متعلق بازاری روایات کا رد کیا اور مضمون کے آخر میں واضح طور پر لکھا “زیب النساء کے جائے مدفن کے متعلق جو نئی کہانی سنائی جاتی ہے کہ وہ نواں کوٹ میں دفن ہے وہ قطعی درست نہیں.” طبع ١۹٣٣ء ص ١٣۰ تا ١٤۰. منی لال اپنی کتاب اورنگ زیب میں لکھتے ہیں”زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں کابلی دروازہ کے باہر ہے. یہ مقبرہ ١۸٥٧ ءکی جنگ میں فرنگیوں کے مخالفوں کا مرکز بن گیا. برطانوی حکمرانوں نے مقبرے کا ماربل وغیرہ اکبر کے مقبرے پر بھجوا دیا.” طبع ١۹۲٣ء ص ٦١. علامہ شبلی نعمانی نے زیب النساء پر ایک مضمون تحریر کیا جس میں اس کہانی کا رد کرنا مقصود تھا جو ہمارے مورخین لاہور بھی نہیات ذوق و شوق سے بیان کرتے ہیں. اسی مضمون میں علامہ زیب النساء کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں “زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوگئی. زیب النساء نے ١١١٣ھ میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں سال تھا دلی میں انتقال کیا. ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے.” معروف ماہر فن تعمیر رضوان عظیم نے اپنی کتاب لاہور تاریخ و تعمیر میں نواں کوٹ میں موجود مقبرے کے متعلق لکھا ہے “اس کی شکل و صورت شاہ جہانی عہد کی عمارت سے ملتی ہے. مغل خاندان میں پردہ نشین خواتین کی قبر تہ خانہ میں بناتے تھے اور خالی تعویذ اوپر کے فرش پر ہوتا تھا. لیکن زیر بحث مقبرہ میں نہ تہ خانہ ہے اور نی اس پر تختی کا نشان ہے. چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی مرد کی ہے.” یہی نکتہ رسالہ تہذیب الاخلاق میں محمد اسلم نے بیان کیا اور جناب برق دہلوی کی ایک نظم بھی موجود ہے. (جولائی ١۹۹۸ ص ٤٥). ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے “اماکن لاہور” ,مائیکل برانڈ اور تانیا قریشی و خان نصیر حسین یوسفی نے اپنے اپنے مضامین اور سوما مکھرجی نے اپنی کتاب “رائل لیڈیز اینڈ دَیر کانٹریبیوشن” میں
زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں بتایا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ نواں کوٹ میں موجود یہ مقبرہ اگر زیب النساء کا نہیں تو کس کا ہے. اس ضمن میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور مولانا عبداللہ قریشی کا خیال ہے کہ یہ مقبرہ عہد شاہ جہانی کے امیر افضل خان علامی کا ہے. افضل خان علامی کے تفصیلی حالات مآثر الامراء میں درج ہیں. افضل خان انکا خطاب تھا. اصل نام ملا شکر اللہ شیرازی ہے. افضل خان شہجہان کے شہزادگی کے زمانے کے ساتھی ہیں. افضل خان نے کئی مرتبہ شہزادے شہجہان کا نقطہ نظر جہانگیر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جس کا تذکرہ توزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے. بلکہ ایک دفعہ شہزادے کے پیغام کا غصہ جہانگیر نے افضل خان پر یوں نکالا کہ اسکو کچھ عرصہ کے لیے خانساماں بنادیا. جب شہجہان بادشاہ بنا تو افضل خان کو بہت عروج ملا. افضل خان کی لاہور میں شاندار حویلی بھی تھی. اس بات کی تائید شاہ جہاں نامہ میں درج ایک واقعہ سے بھی ہوجاتی ہے جو کہ کچھ یوں ہے “۲۸ جنوری ١٦٣٥ء حضرت نے علامی افضل خان کے مکان پر قدم رنجہ فرمایا. حضرت کے فیض قدم سے یہ عمارت جو حال ہی میں تیار ہوئی تھی, سعادت و برکت کا مرکز بن گئی.” “افضل منزل” کے متعلق صمصام الدولہ لکھتے ہیں “بادشاہ کی قیام گاہ سے اس کے مکان تک کہ جو پچیس جریب فاصلہ تھا, مختلف قسم کے ریشمی کپڑے بچھاے گئے.”
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ “افضل منزل” بھی نوان کوٹ میں تھی اور یہ مقبرہ بھی افضل خان علامی ہی کا ہے. افضل خان کی وفات تو لاہور ہی میں ہوئی تھی مگر اس کی تدفین کے متعلق مآثر الامراء میں درج ہے “اس کا مقبرہ دریاے جمنا کے کنارے اکبر آباد میں واقع ہے.” آگرہ کی تاریخ لکھنے والے بیشتر مصنفین نے آگرہ میں موجود “چینی کا روضہ” نامی مقبرے کو افضل خان علامی ہی کی آخری آرام گاہ بتایا ہے. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے کافی بحث کی ہے کہ “چینی کا روضہ” افضل خان کا مقبرہ نہیں ہے بلکہ اسکا مقبرہ لاہور میں ہے. خان نصیر حسین یوسفی صاحب نے بھی رسالہ “شباب اردو اگست ١۹٣٦ء” میں اپنے مضمون میں بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ مقبرہ افضل خان کا ہوسکتا ہے. مگر ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کے مطابق زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ, افضل خان علامی کی بجائے میا بائی کا ہے, جس کا نام چوبرجی پر درج ہے اور انکے مطابق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ کسی عورت کا مقبرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی مغل خواتین کے قبریں, زمین دوز نہیں بنائی گئیں. ڈاکٹر انجم رحمانی مزید کہتے ہیں کہ میا بائی کا لقب “فخر النساء” تھا اور لوگوں کو آخری لفظ “نساء” یاد رہا اور یوں میا بائی کا یہ مقبرہ زیب النساء بنت اورنگ زیب بادشاہ سے منسوب ہوگیا. نواں کوٹ کی تاریخی عمارات پر زرنین امتیاز کیفی صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے. ان کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ مقبرہ میابائی کا ہے. لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی خاص شواہد فراہم نہیں کیے. مولوی نور احمد چشتی کہتے ہیں “کہ غرب رویہ اس (چوبرجی) کے مقبرہ میا بائی کا تھا مگر وہ دور سکھاں میں مسمار ہوگیا اور بعض کہتے ہیں کہ میا بائی کا مقبرہ وہاں تھا کہ جہاں اب کوئی کوٹھی سر جان لارنس صاحب کی ہے. ” سر جان لارنس کی کوٹھی کا تذکرہ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے کیا ہے مگر وہاں کوٹھی بنے سے قبل یا بننے کے بعد کسی مغل مقبرے یا اسکے آثار کا ذکر نہیں کیا. قاضی ایم اعظم صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ میا بائی کا ہے. مگر راقم نے حال ہی میں ان سے ملاقات میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی, جس میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال بھٹہ صاحب کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ میا بائی کا نہیں, انکے مطابق میا بائی کے مقبرے کے آثار نواں کوٹ میں محکمہ انڈسٹریز کے دفتر میں موجود تھے جو انہوں نے کئی سال قبل دیکھے تھے, اب شاید یہ آثار بھی موجود نہیں. دربار اکبری میں مولانا محمد حسین آزاد صاحب نے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کے حالات میں لکھا ہے “حاجی عبدالکریم باپ کے بعد لاہور آیا اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری کیا. آخر ١۰٤٥ھ میں لاہور میں نویں کوٹ کے پاس دفن ہوا.” اب اس مقبرے کا کوئی نام و نشاں نہیں ملتا. مقامی لوگوں سے کافی پوچھا مگر کوئی خاص معلومات نہیں ملی. البتہ زیب النساء سے منسوب مقبرے کے دوسری طرف انکے استاد کا مقبرہ بتایا جاتا ہے. بعض ادھر حاجی عبدالکریم کی قبر بتاتے ہیں اور بعض نے زیب النساء سے منسوب اس مقبرے کو ہی حاجی صاحب کا مقبرہ کہا.
متضاد روایات کے باعث فی الوقت حتمی بات نہیں کی جاسکتی. ماضی میں اس مقبرے کے ساتھ بے حد برا سلوک ہوا. یہاں کسی زمانے مرغی خانہ رہا. شاید صاحب مقبرہ کے متعلق اس مقبرے میں کبھی کچھ موجود ہو مگر عدم توجہ کے باعث اب ایسا کچھ موجود نہیں. حال ہی میں عدالت کے حکم پر اورنج ٹرین کے باعث عمارت کو لاحق خطرے کی وجہ سے اس مقبرے کی قسمت جاگی اور اسکی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا. اس کا ٹینڈر ۲١ مئی ۲۰١۸ء کو وصول کیا گیا. یوں معلوم ہوتا ہے کہ بوسیدہ جسم پر نئے کپڑے ڈالے گے ہیں. خیر اچھا ہے کہ عمارت بحال ہوگئی لیکن اس سے بھی اہم ہے کہ یہ معلوم کیا جائے ,اس مقبرے میں کون آسودہ خاک ہے.
زیب النسا کی شاعری
*زیادہ تر محققین دیوان مخفی کو زیب النساء کا کلام نہیں مانتے البتہ شیخ محمد اکرم نے اپنی کتاب “رود کوثر” میں زیب النساء کے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندرانی اور زیب النساء کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے. طاہرہ صاحبہ نے اپنے مضمون میں شیخ احمد علی ہاشمی سندیلوی صاحب کا ذکر کیا ہے. وہ اپنی کتاب “تذکرہ محزن الغرائب” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں “عصمت قباب شہزادی زیب النساء محی الدین اورنگ زیب کی بڑی صاحب زادی اور صاحب علم و فضل تھیں اور شعر و انشاء میں قدرت کاملہ رکھتی تھیں. میں نے ان کی تالیف “زیب المنشآت” کی زیارت کی ہے, ان کا دیوان کہیں نظر نہیں آیا لیکن ایک تذکرہ میں ان کے اشعار کا انتخاب دیکھا. جس کے صحیح ہونے پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا. سبب یہ ہے کہ صاحب تذکرہ نے اساتذہ کے اکثر اشعار شہزادی زیب النساء کے نام لکھ دیے ہیں.”
نواں کوٹ کا مقبرہ
لاہور میں ملتان روڈ پر مغل عہد کی یہ عمارت موجود ہے, جس کو زیب النساء سے منسوب کیا جاتا ہے. زیب النساء اورنگ زیب کی صاحبزادی ہیں. آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا. اس کے علاوہ فقہ, اصول فقہ, علم حدیث, فلسفہ, ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی. آپ کو کتب سے بہت دلچسپی تھی. بلکہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے کتب خانے پر علماء رشک کرتے تھے. آپ نے تفسیر کبیر کا فارسی ترجمہ بھی کروایا. آپ سے کچھ کتب بھی منسوب ہیں. جن میں زیب المنشات اور دیوان مخفی* کافی مقبول ہیں.
مقبرے پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے زیب النساء کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے. مگر زیب النساء کے مقبرے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے. نور احمد چشتی نے اس مقبرے کو زیب النساء کا جائے مدفن بتایا ہے. کہنیالال, کرنل بھولا ناتھ و سید لطیف نے چشتی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے اس کو مقبرہ زیب النساء تحریر کیا. دیوان مخفی (انگریزی) طبع ١۹١٣ء لندن کے ابتدائیے میں جے سی ڈنکن ویسٹ بروک نے زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. حکیم مظفر حسین نے سوانح نواب زیب النساء بیگم طبع ١۹١١ء میں زیب النساء کے مقبرے کے متعلق تحریر کیا ہے” اورنگ زیب دکن کی فتوحات میں مصروف تھا, (کہ)
سید لطیف کی کتاب میں شامل مقبرے کا خاکہ
مقام دہلی شہزادی کا انتقال ہوا….سید امجد خان کے نام احکام جاری کئے….وہ مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں. شہزادی کا تابوت لاہور لایا گیا….شہزادی کی نعش حسب وصیت لاہور میں نئے کوٹ کے قریب اس باغ (و مقبرہ) میں دفن ہوئی. جو اس نے اپنی حین حیات میں خود ہی بنوایا تھا.” یہی روایت سیماب اکبر آبادی نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۰ء ص ٤٦ اور مولوی عاشق حسین نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤٧ پر بحوالہ حکیم مظفر حسین درج کی. منشی محمد خلیق و ممتاز بیگم نے بھی حیات زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤١ پر یہ واقعہ تحریر کیا. مگر حیرت ہے کہ اورنگ زیب زیب النساء کی وصیت کے مطابق اُس کی نعش لاہور بھجوا رہا ہے. اِس مقبرے میں دفن کرنے کے لیے جو زیب النساء نے خود تعمیر کروایا تھا اور ساتھ ہی اسکا مقبرہ بنانے کا حکم بھی دے رہا ہے. شیح نوید اسلم نے پاکستان کے آثار قدیمہ ص ۲٧١ اور ایس ایم ناز نے لاہور نامہ ص ١٧٧ پر زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. محمد دین فوق نے روایات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے. فوق صاحب اپنی کتاب ” لاہور عہد مغلیہ” لکھتے ہیں “(زیب النساء نے) لاہور میں ایک عالیشان باغ تعمیر کروایا.جو اب تک چُوبرجی کے نام سے راجہ پونچھ کی موجودہ کوٹھی کے متصل نواں کوٹ کی طرف موجود ہے. بیگم نے اپنا مقبرہ بھی لاہور ہی میں اس باغ کے متصل تعمیر کرایا تھا, اور اس کے گرد عظیم الشان چار دیواری کے اندر ایک وسیع باغ لگوایا تھا. لیکن دہلی کے خمیر نے شاہزادی کو لاہور میں دفن نہ ہونے دیا! .” لیکن چوبرجی کا بھی زیب النساء سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے خاکسار کا مضمون بعنوان “چوبرجی”. خیر زیب النساء کا لاہور سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں . چشتی, کہنیالال, لطیف, کرنل بھولا ناتھ و دیگر کئی مصنفین نے شہزادی کے لاہور میں آمد و رہنے سے متعلق کئی جھوٹے قصے بلا تصدیق بیان کر دیے ہیں. انہی میں سے ایک معروف کہانی شالامار باغ کی ہے. جس کے مطابق شہزادی کا ایک قطعہ بھی بیان کیا جاتا ہے. اس کے متعلق انجم طاہرہ صاحبہ نے تحقیق کی ہے. ان کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ قطعہ خواجہ محمد کشمی صاحب کا ہے.
مستند کتب میں زیب النساء کے مقبرے کا ذکر دہلی میں ملتا ہے. وقائع نگار عالمگیر محمد ساقی مستعد خاں نے مآثر عالمگیری میں تین جگہ زیب النساء کا تذکرہ کیا ہے اور زیب النساء کی وفات کے متعلق تحریر کیا ہے “نواب تقدس مآب زیب النساء بیگم نے اس دارفانی سے عالم جاودائی کو رحلت فرمائی. اس پر آپ بہت افسردہ ہوئے. لیکن حضرت نے صبر فرمایا اور سید امجد خان, شیخ عطاءاللہ اور حافظ خان کے نام خیرات و صدقات جاری کرنے اور مرحومہ کا روضہ تعمیر کرانے کے احکام جاری فرماے ملکہ مرحرمہ صاجبتہ الزمانی کے باغ سی ہزاری میں پیوند خاک کی گئیں….حضرت زیب النساء بیگم نے جہاں پناہ کی حیات میں ٤٦ جلوس عالم گیری مطابق ١١١٣ھ میں وفات پائی”. مترجم مآثر عالمگیری طبع ١۹٦۲ء ص ۲۲٤, ۲٥۹, ٤۲۲, ٤٧۹. مولف تاریخ محمدی زیب النساء کی وفات اور تدفین دہلی لکھتا ہے.(بحوالہ کلب علی خان فائق از حاشیہ تاریخ لاہور ص ٣۲۰ طبع ١۹٧٧ء)
مولوی بشیر احمد دہلوی واقعات دارالحکومت‘ دہلی میں لکھتے ہیں”دلی شہر کے کابلی دروازے کے باہر نواب زیب النساء بیگم,عالم گیر بادشاہ کی بڑی صاحبزادی, کا مقبرہ تھا جن کا انتقال ١١١٣ھ (١٧۰۲ء)میں ہوا۔ یہ مقبرہ اور مسجد عالم گیر کے عہد میں بنی تھی جو ریل کی سڑک میں آنے کی وجہ سے مسمار ہوگیا. طبع ١۹١۹ء ج ۲ ص ٤٧٤. سر سید احمد خان نے آثار الصنادید میں تحریر کیا ہے” شہر شاہجہاں آباد کے کابلی دروازے کے باہر یہ مقبرہ ہے, نواب زیب النساء بیگم بنت عالمگیر کا.” مرتبہ خلیق انجم طبع ١۹۹۰ء ص ٣٥٣. نقوش لاہور نمبر میں بھی بحوالہ سیر المنازل, مسٹر بیل اور پنجاب نوٹس اینڈ کویریز ثابت کیا گیا ہے کہ مقبرہ دہلی میں ہے. دیوان ذوق مرتبہ مولانا محمد حسین آزاد میں مولانا کا یہ بیان درج ہے “شہر کے اندر کابلی دروازے کے پاس ہی استاد مرحوم رہتے تھے. باہر ایک باغ بادشاہی تیس ہزاری باغ مشہور تھا. زیب النساء بیگم خواہر عالمگیر کی قبر بھی تھی.” نیچے حاشیے میں مولانا رقمطراز ہیں “اب تیس ہزاری باغ صاف ہوگیا. وہاں ریل چلتی ہے. زیب النساء کی قبر کا نام ونشان نہیں رہا.” طبع ١۹٣٤ ص ٥٤, ٥٥.
انتظام اللہ شہابی سوانح زیب النساء میں لکھتے ہیں”١۹۲٥ء کی موٹروں کی نمائش اس میدان میں ہوئی تو نیچے اونچی جگہ جو صاف ہورہی تھی قبر کُھل گئی. زنانی نعش کا ڈھانچہ نظر پڑا اسی وقت قبر درست کرادی گئی ہے.” طبع ١۹۲۹ء ص ٣۹. سر جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب “سٹڈیز ان اورنگ زیب ریجن” میں زیب النساء سے متعلق بازاری روایات کا رد کیا اور مضمون کے آخر میں واضح طور پر لکھا “زیب النساء کے جائے مدفن کے متعلق جو نئی کہانی سنائی جاتی ہے کہ وہ نواں کوٹ میں دفن ہے وہ قطعی درست نہیں.” طبع ١۹٣٣ء ص ١٣۰ تا ١٤۰. منی لال اپنی کتاب اورنگ زیب میں لکھتے ہیں”زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں کابلی دروازہ کے باہر ہے. یہ مقبرہ ١۸٥٧ ءکی جنگ میں فرنگیوں کے مخالفوں کا مرکز بن گیا. برطانوی حکمرانوں نے مقبرے کا ماربل وغیرہ اکبر کے مقبرے پر بھجوا دیا.” طبع ١۹۲٣ء ص ٦١. علامہ شبلی نعمانی نے زیب النساء پر ایک مضمون تحریر کیا جس میں اس کہانی کا رد کرنا مقصود تھا جو ہمارے مورخین لاہور بھی نہیات ذوق و شوق سے بیان کرتے ہیں. اسی مضمون میں علامہ زیب النساء کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں “زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوگئی. زیب النساء نے ١١١٣ھ میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں سال تھا دلی میں انتقال کیا. ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے.” معروف ماہر فن تعمیر رضوان عظیم نے اپنی کتاب لاہور تاریخ و تعمیر میں نواں کوٹ میں موجود مقبرے کے متعلق لکھا ہے “اس کی شکل و صورت شاہ جہانی عہد کی عمارت سے ملتی ہے. مغل خاندان میں پردہ نشین خواتین کی قبر تہ خانہ میں بناتے تھے اور خالی تعویذ اوپر کے فرش پر ہوتا تھا. لیکن زیر بحث مقبرہ میں نہ تہ خانہ ہے اور نی اس پر تختی کا نشان ہے. چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی مرد کی ہے.” یہی نکتہ رسالہ تہذیب الاخلاق میں محمد اسلم نے بیان کیا اور جناب برق دہلوی کی ایک نظم بھی موجود ہے. (جولائی ١۹۹۸ ص ٤٥). ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے “اماکن لاہور” ,مائیکل برانڈ اور تانیا قریشی و خان نصیر حسین یوسفی نے اپنے اپنے مضامین اور سوما مکھرجی نے اپنی کتاب “رائل لیڈیز اینڈ دَیر کانٹریبیوشن” میں
زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں بتایا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ نواں کوٹ میں موجود یہ مقبرہ اگر زیب النساء کا نہیں تو کس کا ہے. اس ضمن میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور مولانا عبداللہ قریشی کا خیال ہے کہ یہ مقبرہ عہد شاہ جہانی کے امیر افضل خان علامی کا ہے. افضل خان علامی کے تفصیلی حالات مآثر الامراء میں درج ہیں. افضل خان انکا خطاب تھا. اصل نام ملا شکر اللہ شیرازی ہے. افضل خان شہجہان کے شہزادگی کے زمانے کے ساتھی ہیں. افضل خان نے کئی مرتبہ شہزادے شہجہان کا نقطہ نظر جہانگیر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جس کا تذکرہ توزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے. بلکہ ایک دفعہ شہزادے کے پیغام کا غصہ جہانگیر نے افضل خان پر یوں نکالا کہ اسکو کچھ عرصہ کے لیے خانساماں بنادیا. جب شہجہان بادشاہ بنا تو افضل خان کو بہت عروج ملا. افضل خان کی لاہور میں شاندار حویلی بھی تھی. اس بات کی تائید شاہ جہاں نامہ میں درج ایک واقعہ سے بھی ہوجاتی ہے جو کہ کچھ یوں ہے “۲۸ جنوری ١٦٣٥ء حضرت نے علامی افضل خان کے مکان پر قدم رنجہ فرمایا. حضرت کے فیض قدم سے یہ عمارت جو حال ہی میں تیار ہوئی تھی, سعادت و برکت کا مرکز بن گئی.” “افضل منزل” کے متعلق صمصام الدولہ لکھتے ہیں “بادشاہ کی قیام گاہ سے اس کے مکان تک کہ جو پچیس جریب فاصلہ تھا, مختلف قسم کے ریشمی کپڑے بچھاے گئے.”
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ “افضل منزل” بھی نوان کوٹ میں تھی اور یہ مقبرہ بھی افضل خان علامی ہی کا ہے. افضل خان کی وفات تو لاہور ہی میں ہوئی تھی مگر اس کی تدفین کے متعلق مآثر الامراء میں درج ہے “اس کا مقبرہ دریاے جمنا کے کنارے اکبر آباد میں واقع ہے.” آگرہ کی تاریخ لکھنے والے بیشتر مصنفین نے آگرہ میں موجود “چینی کا روضہ” نامی مقبرے کو افضل خان علامی ہی کی آخری آرام گاہ بتایا ہے. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے کافی بحث کی ہے کہ “چینی کا روضہ” افضل خان کا مقبرہ نہیں ہے بلکہ اسکا مقبرہ لاہور میں ہے. خان نصیر حسین یوسفی صاحب نے بھی رسالہ “شباب اردو اگست ١۹٣٦ء” میں اپنے مضمون میں بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ مقبرہ افضل خان کا ہوسکتا ہے. مگر ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کے مطابق زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ, افضل خان علامی کی بجائے میا بائی کا ہے, جس کا نام چوبرجی پر درج ہے اور انکے مطابق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ کسی عورت کا مقبرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی مغل خواتین کے قبریں, زمین دوز نہیں بنائی گئیں. ڈاکٹر انجم رحمانی مزید کہتے ہیں کہ میا بائی کا لقب “فخر النساء” تھا اور لوگوں کو آخری لفظ “نساء” یاد رہا اور یوں میا بائی کا یہ مقبرہ زیب النساء بنت اورنگ زیب بادشاہ سے منسوب ہوگیا. نواں کوٹ کی تاریخی عمارات پر زرنین امتیاز کیفی صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے. ان کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ مقبرہ میابائی کا ہے. لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی خاص شواہد فراہم نہیں کیے. مولوی نور احمد چشتی کہتے ہیں “کہ غرب رویہ اس (چوبرجی) کے مقبرہ میا بائی کا تھا مگر وہ دور سکھاں میں مسمار ہوگیا اور بعض کہتے ہیں کہ میا بائی کا مقبرہ وہاں تھا کہ جہاں اب کوئی کوٹھی سر جان لارنس صاحب کی ہے. ” سر جان لارنس کی کوٹھی کا تذکرہ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے کیا ہے مگر وہاں کوٹھی بنے سے قبل یا بننے کے بعد کسی مغل مقبرے یا اسکے آثار کا ذکر نہیں کیا. قاضی ایم اعظم صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ میا بائی کا ہے. مگر راقم نے حال ہی میں ان سے ملاقات میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی, جس میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال بھٹہ صاحب کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ میا بائی کا نہیں, انکے مطابق میا بائی کے مقبرے کے آثار نواں کوٹ میں محکمہ انڈسٹریز کے دفتر میں موجود تھے جو انہوں نے کئی سال قبل دیکھے تھے, اب شاید یہ آثار بھی موجود نہیں. دربار اکبری میں مولانا محمد حسین آزاد صاحب نے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کے حالات میں لکھا ہے “حاجی عبدالکریم باپ کے بعد لاہور آیا اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری کیا. آخر ١۰٤٥ھ میں لاہور میں نویں کوٹ کے پاس دفن ہوا.” اب اس مقبرے کا کوئی نام و نشاں نہیں ملتا. مقامی لوگوں سے کافی پوچھا مگر کوئی خاص معلومات نہیں ملی. البتہ زیب النساء سے منسوب مقبرے کے دوسری طرف انکے استاد کا مقبرہ بتایا جاتا ہے. بعض ادھر حاجی عبدالکریم کی قبر بتاتے ہیں اور بعض نے زیب النساء سے منسوب اس مقبرے کو ہی حاجی صاحب کا مقبرہ کہا.
متضاد روایات کے باعث فی الوقت حتمی بات نہیں کی جاسکتی. ماضی میں اس مقبرے کے ساتھ بے حد برا سلوک ہوا. یہاں کسی زمانے مرغی خانہ رہا. شاید صاحب مقبرہ کے متعلق اس مقبرے میں کبھی کچھ موجود ہو مگر عدم توجہ کے باعث اب ایسا کچھ موجود نہیں. حال ہی میں عدالت کے حکم پر اورنج ٹرین کے باعث عمارت کو لاحق خطرے کی وجہ سے اس مقبرے کی قسمت جاگی اور اسکی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا. اس کا ٹینڈر ۲١ مئی ۲۰١۸ء کو وصول کیا گیا. یوں معلوم ہوتا ہے کہ بوسیدہ جسم پر نئے کپڑے ڈالے گے ہیں. خیر اچھا ہے کہ عمارت بحال ہوگئی لیکن اس سے بھی اہم ہے کہ یہ معلوم کیا جائے ,اس مقبرے میں کون آسودہ خاک ہے.
زیب النسا کی شاعری
*زیادہ تر محققین دیوان مخفی کو زیب النساء کا کلام نہیں مانتے البتہ شیخ محمد اکرم نے اپنی کتاب “رود کوثر” میں زیب النساء کے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندرانی اور زیب النساء کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے. طاہرہ صاحبہ نے اپنے مضمون میں شیخ احمد علی ہاشمی سندیلوی صاحب کا ذکر کیا ہے. وہ اپنی کتاب “تذکرہ محزن الغرائب” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں “عصمت قباب شہزادی زیب النساء محی الدین اورنگ زیب کی بڑی صاحب زادی اور صاحب علم و فضل تھیں اور شعر و انشاء میں قدرت کاملہ رکھتی تھیں. میں نے ان کی تالیف “زیب المنشآت” کی زیارت کی ہے, ان کا دیوان کہیں نظر نہیں آیا لیکن ایک تذکرہ میں ان کے اشعار کا انتخاب دیکھا. جس کے صحیح ہونے پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا. سبب یہ ہے کہ صاحب تذکرہ نے اساتذہ کے اکثر اشعار شہزادی زیب النساء کے نام لکھ دیے ہیں.”
نواں کوٹ کا مقبرہ
لاہور میں ملتان روڈ پر مغل عہد کی یہ عمارت موجود ہے, جس کو زیب النساء سے منسوب کیا جاتا ہے. زیب النساء اورنگ زیب کی صاحبزادی ہیں. آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا. اس کے علاوہ فقہ, اصول فقہ, علم حدیث, فلسفہ, ریاضی اور فلکیات کی تعلیم بھی حاصل کی. آپ کو کتب سے بہت دلچسپی تھی. بلکہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے کتب خانے پر علماء رشک کرتے تھے. آپ نے تفسیر کبیر کا فارسی ترجمہ بھی کروایا. آپ سے کچھ کتب بھی منسوب ہیں. جن میں زیب المنشات اور دیوان مخفی* کافی مقبول ہیں.
مقبرے پر محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے زیب النساء کے نام کی تختی بھی لگی ہوئی ہے. مگر زیب النساء کے مقبرے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے. نور احمد چشتی نے اس مقبرے کو زیب النساء کا جائے مدفن بتایا ہے. کہنیالال, کرنل بھولا ناتھ و سید لطیف نے چشتی صاحب کی پیروی کرتے ہوئے اس کو مقبرہ زیب النساء تحریر کیا. دیوان مخفی (انگریزی) طبع ١۹١٣ء لندن کے ابتدائیے میں جے سی ڈنکن ویسٹ بروک نے زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. حکیم مظفر حسین نے سوانح نواب زیب النساء بیگم طبع ١۹١١ء میں زیب النساء کے مقبرے کے متعلق تحریر کیا ہے” اورنگ زیب دکن کی فتوحات میں مصروف تھا, (کہ)
سید لطیف کی کتاب میں شامل مقبرے کا خاکہ
مقام دہلی شہزادی کا انتقال ہوا….سید امجد خان کے نام احکام جاری کئے….وہ مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں. شہزادی کا تابوت لاہور لایا گیا….شہزادی کی نعش حسب وصیت لاہور میں نئے کوٹ کے قریب اس باغ (و مقبرہ) میں دفن ہوئی. جو اس نے اپنی حین حیات میں خود ہی بنوایا تھا.” یہی روایت سیماب اکبر آبادی نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۰ء ص ٤٦ اور مولوی عاشق حسین نے سوانح زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤٧ پر بحوالہ حکیم مظفر حسین درج کی. منشی محمد خلیق و ممتاز بیگم نے بھی حیات زیب النساء طبع ١۹۲۲ء ص ٤١ پر یہ واقعہ تحریر کیا. مگر حیرت ہے کہ اورنگ زیب زیب النساء کی وصیت کے مطابق اُس کی نعش لاہور بھجوا رہا ہے. اِس مقبرے میں دفن کرنے کے لیے جو زیب النساء نے خود تعمیر کروایا تھا اور ساتھ ہی اسکا مقبرہ بنانے کا حکم بھی دے رہا ہے. شیح نوید اسلم نے پاکستان کے آثار قدیمہ ص ۲٧١ اور ایس ایم ناز نے لاہور نامہ ص ١٧٧ پر زیب النساء کا مقبرہ لاہور میں بتایا ہے. محمد دین فوق نے روایات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے. فوق صاحب اپنی کتاب ” لاہور عہد مغلیہ” لکھتے ہیں “(زیب النساء نے) لاہور میں ایک عالیشان باغ تعمیر کروایا.جو اب تک چُوبرجی کے نام سے راجہ پونچھ کی موجودہ کوٹھی کے متصل نواں کوٹ کی طرف موجود ہے. بیگم نے اپنا مقبرہ بھی لاہور ہی میں اس باغ کے متصل تعمیر کرایا تھا, اور اس کے گرد عظیم الشان چار دیواری کے اندر ایک وسیع باغ لگوایا تھا. لیکن دہلی کے خمیر نے شاہزادی کو لاہور میں دفن نہ ہونے دیا! .” لیکن چوبرجی کا بھی زیب النساء سے کوئی تعلق نہیں تفصیل کے لیے دیکھیے خاکسار کا مضمون بعنوان “چوبرجی”. خیر زیب النساء کا لاہور سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں . چشتی, کہنیالال, لطیف, کرنل بھولا ناتھ و دیگر کئی مصنفین نے شہزادی کے لاہور میں آمد و رہنے سے متعلق کئی جھوٹے قصے بلا تصدیق بیان کر دیے ہیں. انہی میں سے ایک معروف کہانی شالامار باغ کی ہے. جس کے مطابق شہزادی کا ایک قطعہ بھی بیان کیا جاتا ہے. اس کے متعلق انجم طاہرہ صاحبہ نے تحقیق کی ہے. ان کے تحقیقی مقالے کے مطابق یہ قطعہ خواجہ محمد کشمی صاحب کا ہے.
مستند کتب میں زیب النساء کے مقبرے کا ذکر دہلی میں ملتا ہے. وقائع نگار عالمگیر محمد ساقی مستعد خاں نے مآثر عالمگیری میں تین جگہ زیب النساء کا تذکرہ کیا ہے اور زیب النساء کی وفات کے متعلق تحریر کیا ہے “نواب تقدس مآب زیب النساء بیگم نے اس دارفانی سے عالم جاودائی کو رحلت فرمائی. اس پر آپ بہت افسردہ ہوئے. لیکن حضرت نے صبر فرمایا اور سید امجد خان, شیخ عطاءاللہ اور حافظ خان کے نام خیرات و صدقات جاری کرنے اور مرحومہ کا روضہ تعمیر کرانے کے احکام جاری فرماے ملکہ مرحرمہ صاجبتہ الزمانی کے باغ سی ہزاری میں پیوند خاک کی گئیں….حضرت زیب النساء بیگم نے جہاں پناہ کی حیات میں ٤٦ جلوس عالم گیری مطابق ١١١٣ھ میں وفات پائی”. مترجم مآثر عالمگیری طبع ١۹٦۲ء ص ۲۲٤, ۲٥۹, ٤۲۲, ٤٧۹. مولف تاریخ محمدی زیب النساء کی وفات اور تدفین دہلی لکھتا ہے.(بحوالہ کلب علی خان فائق از حاشیہ تاریخ لاہور ص ٣۲۰ طبع ١۹٧٧ء)
مولوی بشیر احمد دہلوی واقعات دارالحکومت‘ دہلی میں لکھتے ہیں”دلی شہر کے کابلی دروازے کے باہر نواب زیب النساء بیگم,عالم گیر بادشاہ کی بڑی صاحبزادی, کا مقبرہ تھا جن کا انتقال ١١١٣ھ (١٧۰۲ء)میں ہوا۔ یہ مقبرہ اور مسجد عالم گیر کے عہد میں بنی تھی جو ریل کی سڑک میں آنے کی وجہ سے مسمار ہوگیا. طبع ١۹١۹ء ج ۲ ص ٤٧٤. سر سید احمد خان نے آثار الصنادید میں تحریر کیا ہے” شہر شاہجہاں آباد کے کابلی دروازے کے باہر یہ مقبرہ ہے, نواب زیب النساء بیگم بنت عالمگیر کا.” مرتبہ خلیق انجم طبع ١۹۹۰ء ص ٣٥٣. نقوش لاہور نمبر میں بھی بحوالہ سیر المنازل, مسٹر بیل اور پنجاب نوٹس اینڈ کویریز ثابت کیا گیا ہے کہ مقبرہ دہلی میں ہے. دیوان ذوق مرتبہ مولانا محمد حسین آزاد میں مولانا کا یہ بیان درج ہے “شہر کے اندر کابلی دروازے کے پاس ہی استاد مرحوم رہتے تھے. باہر ایک باغ بادشاہی تیس ہزاری باغ مشہور تھا. زیب النساء بیگم خواہر عالمگیر کی قبر بھی تھی.” نیچے حاشیے میں مولانا رقمطراز ہیں “اب تیس ہزاری باغ صاف ہوگیا. وہاں ریل چلتی ہے. زیب النساء کی قبر کا نام ونشان نہیں رہا.” طبع ١۹٣٤ ص ٥٤, ٥٥.
انتظام اللہ شہابی سوانح زیب النساء میں لکھتے ہیں”١۹۲٥ء کی موٹروں کی نمائش اس میدان میں ہوئی تو نیچے اونچی جگہ جو صاف ہورہی تھی قبر کُھل گئی. زنانی نعش کا ڈھانچہ نظر پڑا اسی وقت قبر درست کرادی گئی ہے.” طبع ١۹۲۹ء ص ٣۹. سر جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب “سٹڈیز ان اورنگ زیب ریجن” میں زیب النساء سے متعلق بازاری روایات کا رد کیا اور مضمون کے آخر میں واضح طور پر لکھا “زیب النساء کے جائے مدفن کے متعلق جو نئی کہانی سنائی جاتی ہے کہ وہ نواں کوٹ میں دفن ہے وہ قطعی درست نہیں.” طبع ١۹٣٣ء ص ١٣۰ تا ١٤۰. منی لال اپنی کتاب اورنگ زیب میں لکھتے ہیں”زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں کابلی دروازہ کے باہر ہے. یہ مقبرہ ١۸٥٧ ءکی جنگ میں فرنگیوں کے مخالفوں کا مرکز بن گیا. برطانوی حکمرانوں نے مقبرے کا ماربل وغیرہ اکبر کے مقبرے پر بھجوا دیا.” طبع ١۹۲٣ء ص ٦١. علامہ شبلی نعمانی نے زیب النساء پر ایک مضمون تحریر کیا جس میں اس کہانی کا رد کرنا مقصود تھا جو ہمارے مورخین لاہور بھی نہیات ذوق و شوق سے بیان کرتے ہیں. اسی مضمون میں علامہ زیب النساء کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں “زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوگئی. زیب النساء نے ١١١٣ھ میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں سال تھا دلی میں انتقال کیا. ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے.” معروف ماہر فن تعمیر رضوان عظیم نے اپنی کتاب لاہور تاریخ و تعمیر میں نواں کوٹ میں موجود مقبرے کے متعلق لکھا ہے “اس کی شکل و صورت شاہ جہانی عہد کی عمارت سے ملتی ہے. مغل خاندان میں پردہ نشین خواتین کی قبر تہ خانہ میں بناتے تھے اور خالی تعویذ اوپر کے فرش پر ہوتا تھا. لیکن زیر بحث مقبرہ میں نہ تہ خانہ ہے اور نی اس پر تختی کا نشان ہے. چناچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قبر کسی مرد کی ہے.” یہی نکتہ رسالہ تہذیب الاخلاق میں محمد اسلم نے بیان کیا اور جناب برق دہلوی کی ایک نظم بھی موجود ہے. (جولائی ١۹۹۸ ص ٤٥). ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے “اماکن لاہور” ,مائیکل برانڈ اور تانیا قریشی و خان نصیر حسین یوسفی نے اپنے اپنے مضامین اور سوما مکھرجی نے اپنی کتاب “رائل لیڈیز اینڈ دَیر کانٹریبیوشن” میں
زیب النساء کا مقبرہ دہلی میں بتایا ہے.
اب سوال یہ ہے کہ نواں کوٹ میں موجود یہ مقبرہ اگر زیب النساء کا نہیں تو کس کا ہے. اس ضمن میں ڈاکٹر عبداللہ چغتائی اور مولانا عبداللہ قریشی کا خیال ہے کہ یہ مقبرہ عہد شاہ جہانی کے امیر افضل خان علامی کا ہے. افضل خان علامی کے تفصیلی حالات مآثر الامراء میں درج ہیں. افضل خان انکا خطاب تھا. اصل نام ملا شکر اللہ شیرازی ہے. افضل خان شہجہان کے شہزادگی کے زمانے کے ساتھی ہیں. افضل خان نے کئی مرتبہ شہزادے شہجہان کا نقطہ نظر جہانگیر بادشاہ کے سامنے پیش کیا جس کا تذکرہ توزک جہانگیری میں بھی ملتا ہے. بلکہ ایک دفعہ شہزادے کے پیغام کا غصہ جہانگیر نے افضل خان پر یوں نکالا کہ اسکو کچھ عرصہ کے لیے خانساماں بنادیا. جب شہجہان بادشاہ بنا تو افضل خان کو بہت عروج ملا. افضل خان کی لاہور میں شاندار حویلی بھی تھی. اس بات کی تائید شاہ جہاں نامہ میں درج ایک واقعہ سے بھی ہوجاتی ہے جو کہ کچھ یوں ہے “۲۸ جنوری ١٦٣٥ء حضرت نے علامی افضل خان کے مکان پر قدم رنجہ فرمایا. حضرت کے فیض قدم سے یہ عمارت جو حال ہی میں تیار ہوئی تھی, سعادت و برکت کا مرکز بن گئی.” “افضل منزل” کے متعلق صمصام الدولہ لکھتے ہیں “بادشاہ کی قیام گاہ سے اس کے مکان تک کہ جو پچیس جریب فاصلہ تھا, مختلف قسم کے ریشمی کپڑے بچھاے گئے.”
ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے اپنے ایک مضمون میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ “افضل منزل” بھی نوان کوٹ میں تھی اور یہ مقبرہ بھی افضل خان علامی ہی کا ہے. افضل خان کی وفات تو لاہور ہی میں ہوئی تھی مگر اس کی تدفین کے متعلق مآثر الامراء میں درج ہے “اس کا مقبرہ دریاے جمنا کے کنارے اکبر آباد میں واقع ہے.” آگرہ کی تاریخ لکھنے والے بیشتر مصنفین نے آگرہ میں موجود “چینی کا روضہ” نامی مقبرے کو افضل خان علامی ہی کی آخری آرام گاہ بتایا ہے. ڈاکٹر عبداللہ چغتائی صاحب نے کافی بحث کی ہے کہ “چینی کا روضہ” افضل خان کا مقبرہ نہیں ہے بلکہ اسکا مقبرہ لاہور میں ہے. خان نصیر حسین یوسفی صاحب نے بھی رسالہ “شباب اردو اگست ١۹٣٦ء” میں اپنے مضمون میں بحث کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ مقبرہ افضل خان کا ہوسکتا ہے. مگر ڈاکٹر انجم رحمانی صاحب کے مطابق زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ, افضل خان علامی کی بجائے میا بائی کا ہے, جس کا نام چوبرجی پر درج ہے اور انکے مطابق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ یہ کسی عورت کا مقبرہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کئی مغل خواتین کے قبریں, زمین دوز نہیں بنائی گئیں. ڈاکٹر انجم رحمانی مزید کہتے ہیں کہ میا بائی کا لقب “فخر النساء” تھا اور لوگوں کو آخری لفظ “نساء” یاد رہا اور یوں میا بائی کا یہ مقبرہ زیب النساء بنت اورنگ زیب بادشاہ سے منسوب ہوگیا. نواں کوٹ کی تاریخی عمارات پر زرنین امتیاز کیفی صاحبہ کا ایم فل کا مقالہ ہے. ان کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ مقبرہ میابائی کا ہے. لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی خاص شواہد فراہم نہیں کیے. مولوی نور احمد چشتی کہتے ہیں “کہ غرب رویہ اس (چوبرجی) کے مقبرہ میا بائی کا تھا مگر وہ دور سکھاں میں مسمار ہوگیا اور بعض کہتے ہیں کہ میا بائی کا مقبرہ وہاں تھا کہ جہاں اب کوئی کوٹھی سر جان لارنس صاحب کی ہے. ” سر جان لارنس کی کوٹھی کا تذکرہ کرنل ایچ آر گولڈنگ نے کیا ہے مگر وہاں کوٹھی بنے سے قبل یا بننے کے بعد کسی مغل مقبرے یا اسکے آثار کا ذکر نہیں کیا. قاضی ایم اعظم صاحب نے بھی اپنے ایک مضمون میں یہ نتیجہ نکالا تھا کہ زیب النساء سے منسوب یہ مقبرہ میا بائی کا ہے. مگر راقم نے حال ہی میں ان سے ملاقات میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی, جس میں انہوں نے ڈاکٹر اقبال بھٹہ صاحب کے حوالے سے بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ مقبرہ میا بائی کا نہیں, انکے مطابق میا بائی کے مقبرے کے آثار نواں کوٹ میں محکمہ انڈسٹریز کے دفتر میں موجود تھے جو انہوں نے کئی سال قبل دیکھے تھے, اب شاید یہ آثار بھی موجود نہیں. دربار اکبری میں مولانا محمد حسین آزاد صاحب نے مخدوم الملک ملا عبداللہ سلطان پوری کے حالات میں لکھا ہے “حاجی عبدالکریم باپ کے بعد لاہور آیا اور پیری مریدی کا سلسلہ جاری کیا. آخر ١۰٤٥ھ میں لاہور میں نویں کوٹ کے پاس دفن ہوا.” اب اس مقبرے کا کوئی نام و نشاں نہیں ملتا. مقامی لوگوں سے کافی پوچھا مگر کوئی خاص معلومات نہیں ملی. البتہ زیب النساء سے منسوب مقبرے کے دوسری طرف انکے استاد کا مقبرہ بتایا جاتا ہے. بعض ادھر حاجی عبدالکریم کی قبر بتاتے ہیں اور بعض نے زیب النساء سے منسوب اس مقبرے کو ہی حاجی صاحب کا مقبرہ کہا.
متضاد روایات کے باعث فی الوقت حتمی بات نہیں کی جاسکتی. ماضی میں اس مقبرے کے ساتھ بے حد برا سلوک ہوا. یہاں کسی زمانے مرغی خانہ رہا. شاید صاحب مقبرہ کے متعلق اس مقبرے میں کبھی کچھ موجود ہو مگر عدم توجہ کے باعث اب ایسا کچھ موجود نہیں. حال ہی میں عدالت کے حکم پر اورنج ٹرین کے باعث عمارت کو لاحق خطرے کی وجہ سے اس مقبرے کی قسمت جاگی اور اسکی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا گیا. اس کا ٹینڈر ۲١ مئی ۲۰١۸ء کو وصول کیا گیا. یوں معلوم ہوتا ہے کہ بوسیدہ جسم پر نئے کپڑے ڈالے گے ہیں. خیر اچھا ہے کہ عمارت بحال ہوگئی لیکن اس سے بھی اہم ہے کہ یہ معلوم کیا جائے ,اس مقبرے میں کون آسودہ خاک ہے.
زیب النسا کی شاعری
*زیادہ تر محققین دیوان مخفی کو زیب النساء کا کلام نہیں مانتے البتہ شیخ محمد اکرم نے اپنی کتاب “رود کوثر” میں زیب النساء کے استاد ملا محمد سعید اشرف ماژندرانی اور زیب النساء کی شاعری کا تذکرہ کیا ہے. طاہرہ صاحبہ نے اپنے مضمون میں شیخ احمد علی ہاشمی سندیلوی صاحب کا ذکر کیا ہے. وہ اپنی کتاب “تذکرہ محزن الغرائب” میں اس حوالے سے لکھتے ہیں “عصمت قباب شہزادی زیب النساء محی الدین اورنگ زیب کی بڑی صاحب زادی اور صاحب علم و فضل تھیں اور شعر و انشاء میں قدرت کاملہ رکھتی تھیں. میں نے ان کی تالیف “زیب المنشآت” کی زیارت کی ہے, ان کا دیوان کہیں نظر نہیں آیا لیکن ایک تذکرہ میں ان کے اشعار کا انتخاب دیکھا. جس کے صحیح ہونے پہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا. سبب یہ ہے کہ صاحب تذکرہ نے اساتذہ کے اکثر اشعار شہزادی زیب النساء کے نام لکھ دیے ہیں.”