اے سی وولنر کا یہ مجسمہ مال روڈ پر جامعہ پنجاب کے فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر نصب ہے.
اے سی وولنر ١٣ مئی ١۸٧۸ء کو برطانیہ کے علاقے اتیوریہ ہال سٹیفورڈ شائر میں پیدا ہوئے. آپ کے والد ہنلی کے ایک سکول میں مدرس تھے. وولنر نے اپنی ابتدائی تعلیم سے ہی غیر معمولی کارگردی کا مظاہرہ کیا اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. ابتدائی تعلیم کے بعد آکسفورڈ پہنچے اور یہاں بھی اعلی کارگردی دکھانے پر وظیفہ حاصل کیا. آپ نے فارسی, چائینز, سنسکرت, پراکرت(پالی) و دیگر کئی زبانوں میں مہارت حاصل کی. آپ کو قدیم زبانوں سے بے حد دلچسپی تھی. ١۹۰٣ء میں وولنر ایک وظیفہ ملنے پر ہند تشریف لائے. یہاں آپ کو اورئینٹل کالج لاہور کا پرسنپل اور جامعہ پنجاب کا رجسٹرار مقرر کیا گیا. اس کے بعد مرتے دم تک ان اداروں سے آپ کا تعلق قائم رہا. ڈاکٹر بنارسی داس نے آپ کے سوانحی مضمون میں آپ کی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے. جامعہ پنجاب کو عروج پر پہنچانے میں آپ کا اہم کردار ہے. آپ جامعہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے. شروع میں آپ رجسٹرار تھے پھر آپ نے ١۹۲۸ء تا ١۹٣١ء تک وائس چانسلر کے طور پر بھی کام کیا. آپ جامعہ میں ڈین اور اس کے کتب خانے کے اعزازی رکن بھی رہے. آپ نے کتب خانے کو تقریباً ۹ ہزار سے زائد قدیم مخطوطات بھی عطیہ کیے جنہیں بعد ازاں وولنر کولیکشن کا نام دیا گیا. اس کولیکشن کی فہرست کا پہلا حصہ ١۹٣۲ء میں شائع ہوا. اس کے تعارف میں جامعہ کے اس وقت کے مہتم کتب خانہ لالہ لبھو رام لکھتے ہیں کہ بنارسی داس جو کے ایم اے کے طالب علم اور اے سی وولنر کے شاگرد تھے, انہوں نے استاد محترم کی توجہ اس طرف دلائی کہ بہت سے قدیم مخطوطات ہیں, انہیں خرید کر محفوظ کیا جا سکتا ہے. پروفیسر اے سی وولنر نے پھر انہیں اکٹھا کرنے کے لیے نہ صرف محنت کی بلکہ خطیر رقم بھی خرچ کی. یہ نسخے صدیوں قدیم ہیں بلکہ تقریباً ۲۰۰۰ کے قریب مخطوطات ایسے ہیں,جن میں کھجور کے پتوں پر لکھا گیا ہے. اے سی وولنر نے اپنی یہ نہایت قیمتی کولیکشن جامعہ پنجاب کو ہدیہ کردی. ۲۰۰٧ء میں جامعہ پنجاب نے دو بین الاقومی جامعات کے ساتھ مل کر ان مخطوطات کو محفوظ کرنے اور ڈیجیٹلائز کرنے کا کام شروع کیا تھا. ١۹٣٦ء میں آپ کی عطیہ کردہ کتب کو وولنر کولیکشن کا نام دیا گیا. اس کے علاوہ جامعہ میں آپ کے نام پر ایک ہال اور ہاسٹل کا نام بھی ہے. پروفیسر اے سی وولنر کو بہت سے اعزازات سے نوازا گیا. ١۹۲٦ء میں آپ کو آڈر آف انڈین ایمپائر(سی آئی ای) کا لقب عطا ہوا اور اسی سال آپ رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے رکن بھی بنے. ١۹٣٣ء میں آپ کو ڈاکٹر آف لٹریچر کی سند بھی عطا ہوئی. اس کے علاوہ آپ فرینچ اکیڈمی کے چند برطانوی اراکین میں بھی شامل ہیں. پروفیسر وولنر نے کئی علمی و تحقیقی کتب تحریر کیں. آپ ایک بہتر لکھاری, مولف و مترجم تھے. آپ کے شاگرد رشید مولوی محمد شفیع نے ١۹٤۰ء میں آپ کی بے شمار خدمات کے حوالے سے ایک جامع کتاب مرتب کی جس سے ۔۔آپ کے زندگی اور آپ کے علمی و تحقیقی کام کے متعلق قابل قدر معلومات ملتی ہے.
پروفیسر وولنر نے ٧ جنوری ١۹٣٦ء کو میو ہسپتال لاہور میں وفات پائی. اس خبر کے بعد پنجاب یونیورسٹی و اس کے زیر اہمتام تمام ادارے بند کر دیے گے. آپ کی آخری رسومات کے متعلق لاہور کے مایہ ناز فوٹو گرافر, ایف ای چوہدری منیر احمد منیر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں “وولنر وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ١۹٣٦ء میں مرا ہے. اس کا بڑا لمبا جنازہ تھا. کوئی تین میل لمبا جنازہ تھا. لوگ پیدل گئے تھے, گورا قبرستان. گلبرگ والا. ہم دونوں(راج گوپال و ایف ای چوہدری) بائیسکلوں پر تھے. اس نے کہا چوہدری میری بائیسکل پکڑ, میں اس کے تابوت کی فوٹو اتاروں جب وہ اسے قبر میں اتار رہے ہوں. میں نے کہا تجھ سے فوٹو نہیں اترے گی. اتنی بھیڑ ہے کیسے کھنیچے گا…”
چچا چوہدری نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ پروفیسر وولنر کا یہ مجسمہ ان کی بیوی نے اٹلی سے بنوا کر بھیجا تھا. پروفیسر صاحب کی اہلیہ بہت قابل خاتون تھیں. ان کا نام میری ایملی تھا, آپ کے والد سیموئیل کنگ لکھاری تھے. جبکہ آپ کی والدہ کا تعلق معروف برطانوی مصور تھامس لارنس کے خاندان سے تھا. سید فیصل سجاد صاحب نے لاہور میں موجود عوامی مجسموں پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے. اس مضمون میں انہوں نے پروفیسر وولنر کے اس مجسمے کا ذکر بھی کیا ہے. وہ بتاتے ہیں کہ اس مجسمے کی تعمیر برطانیہ کے مجسمہ ساز گلبرٹ لیورڈ کے ہاتھوں ہوئی. اس مجسمے کا خاکہ بھی انہوں نے ہی بنایا تھا. ۲٧ مئی ١۹٣٧ء کو یہ یہاں نصب کیا گیا. اس کی لمبائی تقریباً ٧ فٹ ۹ انچ ہے اور اس کو کانسی سے بنایا گیا ہے. اس مجسمے کا اصل خاکہ ٹاون ہال لاہور میں محفوظ ہے. مجسمے کے نیچے تین جانب پروفیسر وولنر کے متعلق معلومات درج ہے. پروفسیر وولنر کا مجسمہ لاہور میں برطانوی دور سے تعلق رکھنے والا واحد مجسمہ ہے, جو آج بھی اپنی اصل جگہ پہ نہ صرف نصب ہے بلکہ اصل حالت میں بھی ہے. سنتوش کمار صاحب تو لکھتے ہیں “بس لاہور میں اب ایک مجسمہ ہے (جو) بت شکنوں کی دست برد سے بچ نکلا ہے. شاید اس لیے کے اہل کتاب کا ہے.” خیر ایسا نہیں کہ کبھی اس کو توڑنے کی کوشش نہیں کی گی. پچاس کی دہائی میں اس پر حملہ تو ہوا تھا مگر یہ مجسمہ معجزانہ طور پر بچ گیا. مجسمہ تو اب تک موجود ہے. مگر یہ دیکھ کر انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ کبھی اس پہ اشتہاری پوسٹر چسپاں کر دیے جاتے ہیں اور کبھی کوئی ناکام عاشق اپنی عشقیہ کہانی یا سیاسی نعرے سپرے پینٹ سے اس پہ لکھ دیتا ہے. بہت سے لوگ اس چوک سے روزانہ گزرتے ہیں. اس مجسمہ پہ یقیناً نظر بھی پڑتی ہوگی, مگر کسی کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کچھ جاننے میں. بہت سے لوگوں میں ایک اور غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ وولنر صاحب جامعہ پنجاب کے پہلے وی سی تھے. یہ بات قطعاً درست نہیں البتہ وولنر صاحب کا یہ امتیاز ضرور ہے کہ آپ نے جامعہ کے تقریباً ہر اہم عہدے پہ کام کیا اور پھر وائس چانسلر بھی بنے. اس مجسے سے چند قدم کے فاصلے پہ ٹاون ہال ہے. مگر انہوں نے کبھی اس کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا. ان کو تو چھوڑئیے جامعہ پنجاب کے طلباء و حتی کہ کئی اساتذہ پروفیسر وولنر سے واقف نہیں. حکومت کو تو فرصت نہیں. اس لیے جامعہ پنجاب سے ہی التجا ہے کہ اس مجسمے کی حفاظت کا انتظام کریں. نیز پروفیسر وولنر کی مختصر سوانح بھی یہاں کسی بورڈ پر درج کردیں. تاکہ گزرنے والے اس عظیم شخصیت سے واقف تو ہو سکیں. شاہراہ قائداعظم کا یہ چوک تاریخی لحاظ سے بہت اہم ہے. ایک سڑک گورنمنٹ کالج کو جاتی ہے, جبکہ یہیں این سی اے اور جامعہ پنجاب کی اصل عمارت بھی ہے. اسی چوک میں ایک جانب ٹاون ہال میں ایم ایم عالم کا طیارہ ہے اور ایک طرف پروفیسر وولنر کا یہ مجسمہ جبکہ درمیان میں معروف زمزمہ توپ. ساتھ ہی عجائب گھر بھی ہے. لاہور آئیں تو یہاں کا چکر ضرور لگائیں. اور جو پائے ہی لاہور میں جاتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ فوٹرس و ایمپوریم کے ساتھ ساتھ ایسی جگہوں کی بھی زیارت کر لیا کریں. بچوں کو بھی پروفیسر وولنر جیسے لوگوں سے ضرور واقف کروائیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ بھلے لوگ دوسرے مذاہب میں بھی ہوتے ہیں.