دنیا کھیل تماشہ ہے یہاں کوئی لمحہ مسرت کا باعث بنتا ہے اور کوئی بے رحم ثابت ہوتا ہے،دنیا بھر کا ادب انہی خوشی ، غمی اور اس سے جڑے انسانی رویوں کے گرد گھومتا ہے۔ انسانی تاریخ میں بہت سے آفتیں اور مصائب اتنی شدت سے آۓ ہیں جنہوں نے معاشرے کی ساخت کو ہی بدل ڈالا اور اجتماعی سوچ پر گہرے نقوش چھوڑ گۓ۔
اپنے وطن میں مصائب کی ایک داستان ہجرت کی شکل میں موجود ہے جس کی منظر کشی انتظار حسین جیسے مصنفین نے خوب نبھائی ، بہتر سال گزرنے کے باوجود ہجرت سے جڑی کہانیاں اور دکھ زندہ ہیں جس کے آثار آج بھی ہماری زندگی پر نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو نسل در نسل انسانی حافظے میں محفوظ رہتا ہے اور زندگی کے ہر اہم مرحلے پر انساں کو ان تلخ یادوں کو تازہ کردیتا ہے۔
آج ہمارا موضوع کو رونا وائرس کی شکل میں دستک دیتی ہوئ آفت ہے۔ ماضی میں ایسی وباؤں نے انسانی تہذیب پر انتہائی گہرے اور خوف ناک اثرات مرتب کیے جن کے نتیجے میں دیکھتے دیکھتے بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں جن کا ایک انتہائی خوف نام منظر ہمارے ایک بزرگ بیورو کریٹ اور حساس ادیب قدرت اللہ شہاب نے اپنی سرگزشت شہاب نامہ میں کھینچا ہے۔ ایسے ہی تجربات کے پیش نظر ذہن میں آتا ہے کہ ہم جیسے اپنے معماملات کو سنمبھالنے کے عادی ہیں اور احتیاطی تدابیر کو بزدلی اور کمزوری سے منسوب کرتے ہیں،اسے دیکھ کر خوف آتا ہے کہ کہیں یہ آفت ہماری آبادی کے بیشتر حصے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے جاۓ۔ بہرحال کیا ہوگا کیا نہیں، اس بات کا جائزہ تو ماہرین ہی لے سکتے ہیں،
اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ آفت ہمارے سماجی، معاشرتی ، سیاسی حتی کہ اخلاقی رویوں پر بھی ان گنت اثرات ثبت کرے گی،کیا ہمارے دانشوروں نے اس بارے کچھ سوچا ہے؟ کیا کوئی ہماری رہنمائی کے لۓ تیار ہے؟