
امریکا میں کرونا کےسائے پھیلتے جارہے ہیں ،اندازہ تو ساتھ والے شہرہوبوکن Hoboken میں نائٹ کرفیوکے نفازسے ہوگیا تھا جب وہاں کے سکھ مئیرنے رات اٹھ سے مارننگ پانچ بجے تک گھروں سے باہر نکلنے پرپابندی عائد کردی ۔ ہوبوکن امیرگوری قومیت کا مہنگا شہرہے جہاں پر زیادہ تربیس سے چالیس سال عمرکے لڑکے لڑکیان رہایش پذیرہیں، شہرکے مکیں گھرمیں کھانا نہیں پکاتے اس لئے مہنگے ریسٹورنٹ اور شراب خانے ہر طرف کھلےہیں ، خوب بزنس کررہے ہوتے ہیں لیکن اب پابندیوں کا سامناہے تاہم ہوم ڈیلیوری کی اجازت ہے،
ساتھ ہی اج رات اٹھ بجے سے دو میل کے فاصلے پرواقعہ میرے علاقے جرسی سٹی میں بھی نائیٹ کرفیولگادیاگیا کیونکہ یہاں پر بھی کروناوایرس پھیلنا شروع ہوگیا ہے ۔ چند گھنٹے پہلے میری اپنےپڑوسی سردار جی سے بات ہویی تو اس نے تشویشناک خبرسنائی کہ ہمارے شہرکےڈاؤن ٹاؤن ایریا میں پانچ سو مریض ہوچکے ہیں اور وائرس پاکستان کالونی تک اچکا ہے ،
دوسرئ طرف مئیرنیویارک بل بلازیونے نیویارک شہرلاک ڈاؤن کرنے کاارادہ ظاہر کیا تو گورنر سٹیٹ نیویارک مسٹر کومو نے فوری مداخلت کرکے مئیر سٹی نیویارک کوروک دیا کہ اتنا بڑا قدم سٹیٹ کی مرضی کے بغیرنہیں اٹھانے دیاجائے گا، یہ ہوش اڑا دینے والی نیوزتھی کہ سٹی نیویارک لاک ڈاؤن ہوگاجو چوبیس گھنٹے کا شہرہے اور رات تین بجے بھی امیرکن گھومتےپھرتے نظر اتے اورشہرمصروف ہوتا ہے تو کیسا بھیانک منظر ہوگا ، دیکھتے ہیں اگے حالات کیا رخ اختیارکرتے ہیں۔

نیویارک جو گاڑیوں، ریسٹورنٹس، شراب خانوں اور ٹھیٹرز کا شہرہے، اپنی رونقیں کھوچکا ہے جن سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتی تھی وہاں صرف بیس فیصد ٹریفک رہ گئی ، جن چوڑے چوڑے فٹ پاتھوں پر پیدل چلنے کا راستہ نہیں ملتا تھا ان پر بہت سے گورے گوریاں جاگنگ کرتےپائے گئے ۔ میں نے بھی سوچا جم کا رخ کیا جائے کہ کچھ ویٹ لفٹنگ اوررننگ کی جائے تو لاکڈ دروازے پر بندش کا نوٹس لگا ہوا دیکھا ۔ ایک ارگنانک فوڈ سٹورکا رخ کیا تو وہاں لوگوں کی لمبی لائن لگی ہوئی تھی جیساکہ فوڈ کے حصول کےلئے ماسکو سوویت یونین کے کمیونسٹ دور میں دکھائی جاتی تھی
فوڈ کی بے تحاشاڈیمانڈ دیکھ کر دیسی سٹورز نے روایئی انڈین پاکستانی منافع کمانے والی زہنیت ظاہر کرنے میں زرا دیر نہ لگائی ،سات ڈالر والا باسمتی چاول کا بیگ سترہ ڈالرمیں بیچ کر بال بچوں کےاخراجات اوربڑھاپے کے لئے سرمایہ جمع کرنے لگے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ یہ امریکا ہے ، لوکل اتنظامیہ فوری حرکت میں ائی اور ہر سٹورکو پانچ پانچ ہزار ڈالر کا ٹکٹ تھما دیا توانھون نے شرافت سے مال اصل قیمت پر بیچنا شروع کردیا جبکہ امیرکن سٹورز پر کوئی اورچارجنگ دیکھنے میں نہیں ائی کیونکہ یہ یہاں کا کلچرہی نہیں ۔
بہرحال چھوٹے کاروبار تباہ ہوچکے ۔ ٹورزم، ہوٹلنگ، ریسٹورنٹ ، ٹرانپسورٹ ، بارز ، تھیٹرز، نائٹ کلب کے کاروبار پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ان ائمپلائمنٹ انشورنس پر کلیم کرنے والوں کا اتنا رش رہا کہ ان کا سسٹم کریش کرگیا۔
ادھرحکومت امیرکا نے ایک کھرب ڈالر یعنی ایک ہزارارب ڈالر کاریلیف پیکچ تیارکرنا شروع کردیا ہے کہ ہرامیرکن کو کم ازکم ایک ہزار ڈالر کا چیک گھرپر مل جائے جس سے میرے سمیت بے شمارپاکستانیوں کے چہروں پر مسکراہت کھیل گئی کہ اب یہ مہینہ تو کچھ سکون سے گذرے گا اگلے ماہ تک حالات نہ بدلے تو حکومت ا،مریکا ہزار ڈالر سےزاید کا ایک اور چیک فی کس جاری کرے گی۔ مجھے یاد ہے کہ دس سال پہلے بھی صدراوبامہ نے تمام امریکن کو آٹھ اٹھ سو ڈالر کے چیک جاری کئے تھے کہہ مہنگائئ میں کچھ اسانی مل سکے ، جب میں بینک میں اٹھ سو ڈالرکا چیک جمع کرانے گیا تو کیش ٹیلرنے اوبامہ پر غصے میں نفرین بھیجی کہ اتنی مہنگائی میں آٹھ سوڈالرسے کیا ہوتا ہے۔
امیرکا بہت بڑا ملک ہے ، وسعت کا اندازہ اس بات سے کرلیں کہ صرف ایک ریاست ٹیکساس کا سائز پورے پاکستان کے برابر ہے اورپچاس ریاستیں ہیں جن میں اب تک 107ہلاک اور6300 متاثر ہوچکے ہیں ۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب اتے طاقتورملک میں یہ حالت ہے جس کے پاس سرمایہ اور ٹیکنالوجی دونوں ہیں تو پاکستان جیسے ملک کا کیا ہوگا کہونکہ وہاں تو عام علاج کی سہولت بھی میسر نہیں ، یقینا حکومت حقایق لوگوں سے چھپا رہی ہے ورنہ جس طرح ایران سے زائرین کرونا وایرس لے کرائے اور جس لاپروائی سے معاملات کو ہینڈل کیاگیا ہے توپاکستان میں کرونا وایزس کا پھیلاؤ زیادہ ہوگا ، وقت اگیا ہے کہ قوم کوحقایق سے اگاہ کیا جائے اور فوج کا بجٹ ادھا کرکے صحت پر لگایا جائے کیونکہ ہمیں خطرہ انڈیا سے نہیں کرونا وایرس سے ہے ، لوگوں کی صحت کا خیال کرو انھیں غزوہ ہند کے لالی پاپ نہ دو، غریب کا مسئلہ تو روٹی ہے ۔