جدید سرائیکی ادب کے معمار ظفر لاشاری آج منوں مٹی تلے جا سویے اس طرح جدید سرائککی ادب کا ایک باب ختم ہوا۔
ممتاز سرائیکیناول نگار ظفر لشاری گزشتہ روز انتقال کر گئے تھے ، آج انھیں ان کے بے شمار مداحوں اور چاہنے والوں نے محراب والا(ڈیرہ نواب صاحب) میں سپرد خاک کردیا۔
ظفر محمود لشاری 9 دسمبر 1948ء کو احمد پور شرقیہ، ڈیرہ نواب صاحب کے نواحی علاقے محراب والا میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم احمد پور شرقیہ سے حاصل کی، 1967ء میں میٹرک کیا، ایس ای کالج بہاول پور میں ایف ایس سی کے لئے داخلہ لیا لیکن ٹی بی میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ۔ کافی عرصہ سینی ٹوریم میں زیر علاج رہے. صحت یاب ہونے پر چنی گوٹھ میں پی ٹی سی ٹیچر کے طور پر ملازمت کا آغاز کیا۔ پرائیویٹ ایم اے پنجابی، ایم اے سرائیکی اور ایم ایڈ کیا۔ ہیڈ ماسٹر بھی بنے۔ 2008ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔
سرائیکی زبان میں پہلا ناول “نازو” انہوں نے ہی لکھا۔ یہ 1971ء میں سرائیکی ادبی مجلس بہاول پور نے شائع کیا۔ دوسرا سرائیکی ناول “پہاج” 1987ء میں پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کیا۔ افسانوں کا مجموعہ “تتیاں چھاواں” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ان کی دوسری کتابیں “جانباز جتوئی: حیاتی تے فن” ،”خواجہ فرید کے تعلیمی نظریات” اور”سرائیکی لوک سہرے” ہیں۔
ملک بھر کی ادبی برادری نے ظفر لاشاری کے انتقال ہر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اٹھ جانے سے جدید سرائکی ادب میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے تادیر پر نہیں کیا جا سکے گا۔ ان حلقوں نے کہا ہے کہ ظفر لاشاری کے فکر و فن پر تحقیقی کام کی ضرورت ہے تاکہ سرایکی ادب میں ظفر لاشاری نے جو تجربے کیے، انھیں جاری رکھا جاسکے اور نئے ادیب ان کی روایت کو آگے بڑھا سکیں۔