بھلے دور کی نانیاں، دادیاں بچوں کو اکثر دیومالایئ داستانیں سنایا کرتی تھیں جس میں شہزادی کسی آواز کے کانوں میں پڑنے کے سبب پلٹ کر دیکھنے پر پتھر کی ہو جایا کرتی ، پھر ہوتا یوں کہ برسوں کے بعد کوہ کاف سے ایک شہزادہ آتا، ماہ جبین کو آزاد کراتا۔ اس کے بعد ہی وقت کا پہیہ آگے نکل پاتا۔،
معلوم نہیں کہ ان کہانیوں میں کچھ سچائی ہے یا نہیں یا یہ صرف بچوں کو بہلانے کے لیے گھڑی گئیں اور پھر رفتہ رفتہ ہمیں اتنی اچھی لگیں کہ آج ہماری مشترکہ یاداشت کا حصہ ہی نہیں بلکہ تہذیبی روایت میں اہم مقام حاصل کر چکی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کچھ ایسی سچائی بھی رکھتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مودی سرکار مقبوضہ کشمیر پر اپنا غاصبانی تسلط برقرار رکھنے کے لیے ان کہانیوں اور داستانوں جیسے ہتھ کنڈے اختیار نہ کر رہی ہوتی۔ یہ خیال اس لیے آیا کہ حال ہی میں کچھ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں کچھ نئے اور کچھ پرانے شہزادے تراشنا شروع کردیے ہیں۔ ابھی چند ہی روز قبل مقبوضہ کشمیر کی ”اپنی پارٹی” کے وفد کی ملاقات وزیراعظم نریندر مودی سے ہوئی ہے جس کے سربراہ الطاف بخاری نے بھارتی وزیراعظم کے سینے میں کشمیر کے لۓ درد بھی تلاش کرلیا ہے۔
کیا یہ نیا شہزادہ کشمیری عوام کو ترقی اور خوشحالی کے گھوڑے پر سوار کرسکے گا یا یہ کوشش بھی پہلے کی سازشوں کی طرح ناکام رہے گی؟
شاید ناکام ہی رہے گی کیوں کہ وہ شہزادے ہی کیا جو خود قطار میں کھڑے رہنے کا انتظار کررہے ہوں، شہزادے تو دینے والے ۔ہوتے ہیں۔ گھر میں نظربندسید علی گیلانی ہوں یا پھر تہار جیل میں قید یسین ملک ، جب تک ان اصلی شہزادوں کو لگام نہی ۔
دی جاۓ گی، سب سراب ہی رہے گا،
مودی سرکار کو خطے کے امن اور کشمیر کی خوشحالی کے لۓ “اپنی” پارٹی سے آگے کا سوچنا ہو گا۔اپنے اور غیر کے خود ساختہ فرق کو ختم کرنا ہوگا۔
سوال پیدا ہوتا ہےکہ اب یہ الطاف بخاری کون ہیں؟ جو لوگ مقبوضہ کشمیر کی سیاسی سرگرمیوں پر نطر رکھتے ہیں ، انھیں یاد ہوگا کہ یہ صاحب مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز جماعت جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید کے ساتھیوں میں سے تھے لیکن چوں کہ بہت چالاک آدمی تھے اس لیے وہ ہمیشہ مفتی سعید کو بائ پاس کرکے اپنا ٹانکل فٹ کرنے کی کوشش میں لگے رہا کرتے تھے۔ مفتی سعید نے تو انھیں ہمیشہ اوقات میں رکھا لیکن اب محبوبہ مفتی کی نظر بندی کے دوران مودی سرکار نے ان پر ہاتھ رکھ دیا اور اب نھیں منظر پر لایا جارہا ہے۔ گویا شیخ عبداللہ اور اس کے زمانے کی تاریخ ایک بار پھر دہرائی جانے لگی ہے جب بھارت نے اپنے بہت سے پٹھووں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی رائے کو پامال کیا تھا۔