آپ کے سرہانے بیٹھ کر اتارے جانے والی اپنی اس تصویر پر شرمندہ ہوں، مجھے تو اس جنتی نفس کے قدموں میں بیٹھنا چاہئے تھا، یہ مجھ سے ہمالیہ جتنی بڑی غلطی کیسے ہوئی کہ میں ایک ایسے پاکیزہ انسان کے سرہانے بیٹھا۔ اس بہشتی پیکر کے ساتھ میں نے دو گھنٹے گفتگو کی اور وہ ساری بات چیت ریکارڈ ہورہی تھی۔
میری سید آصف علی صاحب سے ملاقات کبھی نہی رہی، ممکن ہے کہ کبھی کسی پروگرام میں ملے ہوں لیکن کوئی ذاتی تعلق، ملاقات کوئی حوالہ ایسا کبھی نہی رہا،
پندرہ دن قبل والدہ صاحبہ کی طرف جاتے ہوئے “جن نما آدمی” ڈاکٹر فیاض کا فون آیا کہ شکیل بھائی ضروری ملنا ہے میں ڈاکٹر فیاض کے گھر کی طرف مڑگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ سید آصف علی صاحب کا فون آیا تھا ان کی طبیعت ناساز ہے عیادت کے لیے چلتے ہیں، میں اور ڈاکٹر فیاض معمار پہنچے جہاں محبتی ماجد بھائی ہمیں لیکر سید آصف علی صاحب کی صاحبزادی کے گھر پہنچے۔
اس بیمار، لاغر، 90 برس سے زیادہ کے بوڑھے لیکن جواں ہمت بستر پر بھی مستعد، اپنے پیغام کی سرتاپا دعوت، اپنے سیاسی اور جماعتی تعلق پر پوری طرح ممطمئ، کوئی شکوہ، شکایت، غیبت کچھ نہی، سراسر اخلاص، سراسر محبت، سراسر خلوص،
لوگوں میں کیسے تم کو بتائوں کہ میں ایک جنتی روح کو دیکھ رہا تھا، بہشت میں اپنے دوستوں سے جلد ہی ملنے والی ایک بہشتی روح کے ساتھ بیٹھا تھا لوگوں میں جنتی آدمی کے ساتھ بیٹھا تھا۔
یہ ملاقات اور تصاویر سوشل میڈیا کی زبان میں بہت وائرل ہوگئیں اور دیگر لوگوں کو بھی آصف علی صاحب سے ملنے کا خیال آیا اور کچھ ذمداران ان سے ملنے پہنچے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسی شخصیت جس نے جماعت اسلامی کے لئے اپنی ساری زندگی لگادی، جو تقویٰ، طہارت، پاکیزگی و اخلاص کا مکمل نمونہ تھا جس نے سعودی عرب کی شہریت ٹھکرادی جس نے بڑے گھر، شاہانہ زندگی کو مڑ کر نہ دیکھا، جس کے گھر میں کراچی جماعت کا پہلا دفتر قائم ہوا، وہ اسی سلوک کا مستحق تھا کیا ایسے لوگوں کی زندگیوں کو جماعت کے نصاب میں شامل نہیں ہونا چاہیے، کیا ایسے لوگوں کو ہمیشہ اپنے دل اور دفتروں میں نہیں بٹھانا چاہئے کیا سید آصف علی صاحب جیسے لوگ گھر میں بٹھا دئے جائیں، کیا یہ طریقہ کار درست ہے
سید آصف علی صاحب میں شرمندہ ہوں میں نے اپنی تصویر آپ کے سرہانے بیٹھ کر کیوں بنوائی مجھے آپ کے قدموں میں بیٹھنا چاہئے تھا۔