تاریخی عجائبات کی سرزمین افغانستان میں پہلی بار بہ یک وقت ریاست کے دو صدور کے حلف اٹھانے کے بعد ملک میں تاحال خاموشی ہے اور بعض مبصرین کی پیشین گوئی کے مطابق ماضی کی طرح حکمرا ں جماعت اور اس کیمخالف جماعتوں کے درمیان کی عسکری محاذ آرائی کا خطرہ پیدا نہیں ہوا۔ اس سے یہ توقع ہو چلی ہے کہ قومیمسائل کے حل کے لیے ماضی کی طرح بندوق اٹھانے کے بہ جائے معروف سیاسی طریقوں کے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ جمیعت اسلامی کی طرف سے صدارت کا حلف اٹھانے والے عبداللہ عبداللہ نے متوازی حلف اٹھانے سے قبل پیش کش کی تھی کہ اشرف غنی اگر ان سے بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے پر آمادہ ہوں تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے اشرف غنی کی طرف سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، یہ ابھی تک واضح نہیں کیوں کہ فریقین نے ابھی تک اپنے اپنے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان تنازع ہے کیا؟ افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات میں اس بار تین بڑے امید وار تھے یعنی اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور انجینئر گل بدین حکمت یار۔ آخر الذکر دونوں امیدواروں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ افغانستان کے ان انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے اور اشرف غنی افغانستان کے انتخابی قوانین کے مطابق پچاس فیصد سے ایک زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ چناں چہ پولنگ کے بعد انتخابی نتایج کے اعلان کے دوران کئی ماہ کے وقفے کے دوران الیکشن کمیشن پر دباو ڈال کر نتائج میں ردو بدل کیا گیا۔ افغانستان کے آزاد سیاسی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر درست انتخابی نتاج سامنے آتے تو اشرف غنی تیسرے نمبر پر ہوتے، عبداللہ عبداللہ پہلے اور حکمت یار دوسرے نمبر پر ہوتے۔
عبداللہ عبداللہ کی طرف سے متوازی طور پر حلف اٹھانے کے بعد اگرچہ ابھی تک خاموشی ہے لیکن یہ خاموشی زیادہ دن نہں رہے گی، اگر معاملات کو سیاسی طور پر حل نہ کیا گیا تو جلد ہی بحران گہرا ہوجانے کی وجہ سے اس کا پہلا اثر افغان امن معاہدے پر پڑے گا۔ اس طرح طویل عرصے سے جنگ جدل میں مبتلا اس ملک میں امن کی امید مدہم ہو جائے گی۔