جن دنوں حسینہ معین کے ڈراموں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا،ہماری نسل کی مسیں بھیگ رہی تھیں ۔ ہم لوگ بڑے انہماک اوررشک کے ساتھ ان کے نٹ کھٹ ڈرامے دیکھا کرتے۔دھوپ کنارے، پرچھائیاں اور بہت سے دوسرے ڈراموں کی یاد اب بھی دل میں گھنٹیاں بجا دیتی ہے۔شکیل، ساحرہ کاظمی، مرینا خان اور سب سے بڑھ کر راحت کاظمی۔دھوپ کنارے میں مرینا اور راحت کی جوڑی کا تو جواب نہیں، معصومیت اور سنجیدگی کا ایسا امتزاج شاید ہی کبھی بنا ہو۔سچ تو یہ ہے راحت کاظمی اسکرین پر آتے تو آنکھیں اور کان دونوں محتاط ہوجاتے کہ کہیں کوئی منظردیکھنے یا ڈائیلاگ سننے سے رہ نہ جائے۔ راحت کاظمی کی اداکاری کی دھاک جمی ہوئی تھی۔ کردار ان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے اور وہ ان کرداروں میں رنگ بھرتے تو مزہ آجاتا۔ اِن ہی دنوں نہ جانے کیسے یہ خیال جڑ پکڑ گیا کہ راحت فقط اداکار نہیں دانش ور بھی ہیں۔یہ خیال بابرکت ثابت ہوا اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ایک علمی پروگرام کی میزبانی ان کے سپرد کردی۔ راحت کاظمی ذہین ،باصلاحیت اور پڑھے لکھے آدمی تھے، انھوں نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی ہوگی ۔ مجھے ایک پروگرام کی یاد آتی ہے۔
موضوع شاید یہ تھا کہ تعلیم اور کارِ سرکار میں قومی زبان کی کار فرمائی کس قدر ہونی چاہئے۔مہمان بہت سے تھے اور سب ہی اپنے اپنے شعبے میں ممتاز، ان میں ایک ڈاکٹر جمیل جالبی بھی تھے۔جالبی صاحب جامعہ کراچی کے وائس چانسلر رہ چکے تھے، اُن دنوں شاید مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ تھے۔ ان کی باری آئی تو انھوں نے اپنی سوچی سمجھی رائے کے مطابق اردو کی بات کی اور بھرپور دلائل کے ساتھ کی۔اللہ بخشے، جالبی صاحب کے بات کرنے کا انداز بڑا دھیمااور پرسکون ہوتا تھا۔ ان کی گفتگو میں مدو جذر بھی آتے ہیں لیکن انداز میں ایسی بزرگی، محبت اور روانی ہوتی کہ وہ بولیں اور سنا کرے کوئی۔و ہ اپنے انداز میں بات کررہے تھے کہ میزبان کو جانے کون سی بات بری لگ گئی ،وہ پرسنل ہوگئے ۔ انھوں نے اپنے مہمان کی بات بار بار کاٹی،ان پر جملے کسے ، بعض تو بہت ہی کٹیلے، خود اردو بھی ان کا نشانہ بن گئی۔ایسا کرتے ہوئے وہ اپنا پیشہ بھی بھول گئے کیون کہ وہ خود بھی ایک مہنگے اسکول میں اردو ہی کے استاد ہیں۔کیا یہ میزبان بہت غیر مہذب تھے، ہرگز نہیں۔پھر مسئلہ کیا تھا؟
مسئلہ بہت ہی اہم اور غیرمعمولی تھاجس کا عنوان بہت مختصر ہے، موجودہ دور کے محاورے میں
Right Person for the Right Job
جبکہ ماضی میں اسے اپنی زبان میں کہا جاتا تھا کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔برسوں پرانے اس واقعے کی یاد ایک نجی ٹیلی ویژن کے ٹاک شو سے تازہ ہوئی جس میں ایک برخود غلط ڈرامہ نگار نے منہ بھر کر ایک خاتون کو گالیاں دیں اور جی بھرکر بدتمیزی کی۔جس وقت یہ صاحب پیشانی پر بل ڈالے اول فول بک رہے تھے ، اس وقت میزبان خاتون کا کردار دلچسپ تھا، وہ بدتمیزی کا نشانہ بننے والی خاتون کو یہ کہہ کر خاموش کرارہی تھیں کہ وہ ان صاحب کو بات کرنے دیں (یعنی بدتمیزی جاری رکھنے دیں) اوراگر انھیں کچھ کہنا ہے تو اس کے لیے اپنی باری کا انتظار کریں۔بعد میں جب کسی اور ٹیلی ویژن چینل پر ان میزبان خاتون سے پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو انھوں نے فرمایا کہ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ایسا ہی ایک واقعہ چند ماہ قبل ایک ٹیلی ویژن شو میں اس وقت رونما ہوا جب ایک سیاست داں نے جوتا میز پر رکھ دیا۔اس موقع پر بھی میزبان کی جبیں پر کوئی شکن نہ پڑی اور وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ اور شگفتگی کے ساتھ پروگرام کو چلاتے رہے جب ان سے اس حادثے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بھی اس میزبان خاتون جیسا عذر پیش کیا۔
ٹیلی ویژن کی اسکرین پر ایسے واقعات اگر پانچ دس برس میں ایک آدھ بار ہوجائیں تو ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن اگر معمول بن جائیں تو تشویش ہونی چاہئے اور ضرور یہ سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے کہ بنیادی مسئلہ کیا ہے؟تحقیق کا یہ ایک دلچسپ موضوع ہے ۔ ہمارے ہاں ٹیلی ویژن جب نجی شعبے میں آیا تو اس کے ذمہ دارو ں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ٹیلی ویژن کا تجربہ رکھنے والے لوگوں کی تلاش تھی۔ ابتدا میں یہ ضرورت پرنٹ میڈیا کی تجربہ کار شخصیات کے ذریعے پوری کی گئی جن میں کامران خان آج بھی موجود ہیں لیکن بعض دوسرے تجربہ کار لوگوں کو خوبرو اور نوجوان چہرے اسکرین پر لانے کے شوق میں رفتہ رفتہ پیچھے کردیا گیا اور ان کی جگہ نئے ، غیر تجربہ کار اور صحافت و سیاست کے علاوہ قوم کے سماجی مسائل کا ادراک نہ رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھ میں آگئی ۔اس طرح ٹیلی ویژن میں تربیت اور روایات کی منتقلی کا نظام ہی قائم نہ ہوسکا جو ماضی میں پرنٹ جرنلزم میں بہت مضبوط تھا اور اب بھی کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہے۔اس وقت ٹیلی ویژن میںعام طور پر یہ وہی لوگ ہیں جو یونیورسٹی سے اٹھے اور کسی نہ کسی سہارے کے زور پر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر جلوہ افروز ہو نے کا شوق پورا کررہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی انا اس قدر مضبوط ہے کہ کوئی حرفِ نصیحت اور کوئی مشورہ ان کے لیے معنی نہیں رکھتا کیوں کہ وہ عقل کل ہیں۔ان نوجوانوں کے پروگراموں کی کنجی پروڈیوسر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ روایت پختہ ہوچکی ہے کہ پروگرام کرنے والا اینکر اپنے پروڈیوسر ساتھ لے کر آتا ہے جو ایسی حماقتوں کا راستہ روکنے کے بجائے راہ ہموار کرتے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ ان پروڈیوسروں میں شاذ ہی پڑھے لکھے اور معاشرے کا ادراک رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے کیرئر کی ابتدا عام طور پرکنٹرول روم میں سوئیچر وغیرہ کے کام سے ہوتی ہے ۔ یہ کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن بری بات یہ ہے کہ وہ بھی اپنے اینکروں کی طرح نہ معاشرے کی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور نہ مطالعے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ جن اداروں میں کام کرتے ہیں، وہاں بھی روزمرہ کے کاموں کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ ان کے ذمہ داروں کی توجہ بھی اس پہلو کی طرف نہیں جاتی۔اس پس منظر میں اگر ایسے حادثات نہ ہوں تو اسے خوش قسمتی سمجھنا چاہئے۔
رہ گئے خلیل الرحمن قمر۔کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک مہنگے ڈرامہ نگار ہیں ، انھیں دیکھنے والے بھی بہت ہیں اوراب ٹیلی ویژن کے اسکرین پر گالی گفتار کے بعد انھیں مذہبی حلقے سے بہت سے پیرو کار بھی میسر آگئے ہیں۔اس صورت حال نے ایک حکایت یاد دلا دی جس کے راوی اور کردار خود مرحوم اشفاق احمد ہیں۔ کوئی صاحب اپنی صاحبزادی کے ہمراہ اشفاق صاحب کے ہاں آئے اور فرمائش کی کہ وہ اسے اپنے کسی ڈرامے میں کوئی کردار دلا دیں۔ اشفاق صاحب نے فرمایاکہ یہ بچی ڈرامے میں کام کرنا چاہتی ہے ، بہت اچھی بات ہے پھر وہ بچی سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ بیٹا ! تم نے کبھی ڈرامہ پڑھا؟ جواب انکار میں ملا، انھوں نے سوال کیا کہ اسکول کالج میں کبھی کسی ڈرامے میں حصہ لیا؟ اس سوال کا جواب بھی انکار میں تھا۔ انھوں نے پوچھاکہ کیا بعد کے برسوں میں اداکاری کے بارے میں کچھ سیکھا اور جانا؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں آیا۔ اشفاق صاحب نے یہ سب باتیں تسلی کے ساتھ سنیں اور پھر کہا کہ چلیں کوئی بات نہیں۔ اچھا یہ بتاو¿ کہ تم ڈرامے میں کام کرنا کیوں چاہتی ہو؟ ”کیوں کہ مجھے اس کا شوق ہے“، اس نے جواب دیا۔ اس پر انھوں نے ایک سوال اور کیااور پوچھا کہ بیٹا! ویسے تم کرتی کیا ہو؟ بیٹی نے بتایا کہ انھوں نے ایم بی بی ایس کر رکھا ہے اور وہ سرجن ہیں۔اشفاق صاحب یہ سن کر مسکرائے پھر کہا کہ عجیب بات ہے،تمھاری عمر میں مجھے بڑا شوق تھا کہ میں بھی سرجن بنوں اور لوگوں کے آپریشن کیاکروں۔اب تمھاری باتیں سنیں ہیں تو یہ خواہش ایک بار پھر جاگ گئی ہے۔ ایک کام کرو مجھے اپنے آپریشن تھیٹر میں لے جاو¿ تاکہ زندگی میں کم ازکم ایک آپریشن تو میں کرلوںتاکہ اس معاملے میں میرے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔اشفاق صاحب کی خواہش پر وہ لڑکی خفا ہوگئی اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپریشن تو انسانی جان کا معاملہ ہے، بغیر سیکھے کسی کے ہاتھ میں نشتر کیسے دیا جاسکتاہے؟”اللہ تیرا بھلا کرے“ ۔ لڑکی کے جواب میں اشفاق صاحب کے منہ نکلا ۔ پھر کہا کہ اداکاری کرنے یا ڈراما لکھنے والے کو بھی کسی سرجن کی طرح ہی تربیت یافتہ ہونا چاہئے کیوں کہ اُس پر ڈاکٹر اور سرجن سے بھی زیادہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔اس کی مثال ماں کی طرح سے ہے جو اچھی اور سمجھ دار ہوگی تو اولاد بھی نیک اور خوش اطوار ہوگی، جاہل اور گنوار ہوگی تو معاشرہ بھی وہی منظر پیش کرے گا۔ اداکاری کی خواہش رکھنے والی لڑکی کی سمجھ میں تو اشفاق صاحب کی بات آگئی تھی ، کیا ہمارے اینکروں اور ڈراما نگاروں کی سمجھ میں بھی کبھی آئے گی یا یہ حساس شعبہ شوقیہ فن کاروں کے ہاتھوں میں ہی برباد ہوتا رہے گا؟